آہ ! استاذِ بے نظیرڈاکٹرنذیراحمدندویؒ

آہ ! استاذِ بے نظیرڈاکٹرنذیراحمدندویؒ

آہ ! استاذِ بے نظیرڈاکٹرنذیراحمدندویؒ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


یہ دنیاایک سرائے فانی ہے، جس کی حقیقت چاردن کی زندگانی ہے، لوگ آتے ہیں، پَلتے ہیں، پڑھتے ہیں، بڑھتے ہیں، چڑھتے ہیں، پھروقت موعود پر اس طرح ڈوب جاتے ہیں، جیسے افقِ آسمان پر سورج غروب ہوجاتا ہے؛ لیکن جس طرح سورج جاتے جاتے اپنے پیچھے اپنی رمق چھوڑ جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں افق پر لالی باقی رہتی ہے، بالکل اسی طرح کچھ لوگ بھی دنیا سے جاتے جاتے ایسے نقوش اپنے پیچھے ثبت کرجاتے ہیں، جو بعد والوں کے لئے سنگ میل ثابت ہوتے ہیں، ایسے ہی جانے والوں میں ’’جناب مولاناڈاکٹرنذیراحمدندویؒ‘‘ بھی ہیں۔

آج(۷/اکتوبر۲۰۲۵ء)ظہرکی نماز کے بعدجیسے ہی واٹس ایپ کے ایک گروپ میں’’اناللہ واناالیه راجعون‘‘ کی تحریر اسکرین پرنظرآئی، انگلیوں کو حرکت دے کرفوراً چیک کیا، خبرپرنظرپڑتے ہی دل دھک سے رہ گیا، تھوڑی دیرکے لئے ساکت وجامد، یہ کیا؟ یہ کب؟ ذہن ودماغ اِس وقت اس خبرکوقبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے؛ لیکن آہ! …چار وناچاراہل علم کے کئی گروپوں سے اس کی تصدیق ہوئی اوربادل ناخواستہ اسے تسلیم کرناپڑا اور یہی ’’تسلیم ورضا‘‘ اہل ایمان کا شیوہ ہے کہ اسے معلوم ہے:کل نفس ذائقة الموت ’’ہرنفس کوموت کا مزہ چکھنا ہے‘‘:

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ، کل ہماری باری ہے

اسی صداقت کونہایت بلیغ انداز میں نمایاں کرتے ہوئے عباسی دور کا صاحب وجدان و بصیرت سخنور، دنیاکی ناپائیداری، موت کی یاد اور آخرت کی تیاری جیسے مضامین کا اثر انگیز نغمہ سرا، فلسفیانہ اوراخلاقی فکرکا حامل شاعر ابوالعتاہیہ (اسماعیل بن قاسم عنزی)کہتا ہے:

مایدفع الموتَ أرجائٌ ولا حرَسُ

ما یغلب الموتَ لاجنٌّ ولا أنسُ

ما إن دعا الموتُ أملاکاً ولا سوقاً

إلا ثناھم إلیه الصرعُ والخلسُ

(نہ مضبوط قلعے موت کو روک سکتے ہیں، نہ چوکس پہرے دار، نہ جنات اس پرقابوپاسکتے ہیں، نہ انسان، جب موت پکارتی ہے تو نہ بادشاہ اس کی دعوت کورد کرسکتے ہیں اورنہ ہی بازارکے لوگ، وہ سب کواچانک جھپٹ لیتی ہے اورکوئی اس کے پنجے سے نہیں نکل پاتا)

دنیاکی نگاہ میں مولاناابھی اس عمرکونہیں پہنچے تھے کہ قزاق اجل انھیں لوٹ کرلے جائے؛ لیکن قضاوقدرکی بیاض میں ان کی عمر اتنی ہی مرقوم تھی، سو وہ اپنی طبعی عمرپوری کر کے دنیائے فانی سے دنیائے جاویدانی کی طرف کوچ کرگئے؛ لیکن اس قدر اچانک گئے کہ اہل تعلق ششدر و حیران اور سرگرداں و پریشان ہوئے بغیرنہیں رہ سکے اوریہ توفطری بات ہے اورانسانی ہمدردی کا تقاضہ بھی اورہم لوگ تو ٹھہرے مولانا کے خوشہ چینوں میں، ظاہر ہے کہ پریشان ہونا اور غم میں ڈوبنا تو ہمارا حق بھی بنتا ہے اور اس کی اجازت بھی دی گئی ہے، خود نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے بھی بیٹے (ابراہیم) کی وفات پرغم کے آنسوٹپک پڑے تھے۔

مولانا ؒکی شکل وصورت سے واقفیت توانیس سوترانوے میں ہی ہوگئی تھی، جب میں ندوہ کے شعبۂ حفظ میں زیرتعلیم تھا؛ لیکن باقاعدہ رو در رو شناسائی اس وقت ہوئی، جب میں براہ راست ان کے اشراف میں آیا، وہ اطہرشرقی کی تیسری منزل کے نگراں تھے، درشت مزاج  نہیں کہ طلبہ متوحش رہتے ہوں؛ بل کہ بالکل اک مشفق ومہربان باپ کی طرح، وہ نرم مزاج تو تھے ہی، گفتگو بھی اسی نرمی کے ساتھ کرتے تھے، بہت سارے نگرانوں کے تعلق سے یہ سننے میں آتا ہے کہ وہ طلبہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، اسی وجہ سے طلبہ بعض ہاسٹلوں میں جانے سے کتراتے تھے؛ لیکن مولانا نذیرصاحب کی نگرانی کا انداز نرالا تھا، نہ وہ طلبہ کے پیچھے پڑے رہتے تھے، نہ انھوں نے طلبہ کوبالکل آزاد چھوڑرکھا تھا؛ بل کہ اس میں اعتدال کی راہ کو اپنائے ہوئے تھے، ان کی نگرانی میں کبھی قید وبندکی سی کیفیت محسوس نہیں ہوئی۔

جب عالیہ رابعہ شریعہ میں پہنچاتوخوش قسمتی سے ہمارا ادب عربی کا گھنٹہ انھیں کے سپردتھا، بہت ہی خوب صورت لب ولہجہ میں درس دیتے تھے، ’’ادب عربی‘‘ کا درس ’’اردو ادب‘‘ کا نمونہ لئے ہوئے ہوتا تھا، شیریں وشستہ زبان، چست ودرست ترجمہ، لکھنوی آداب کی رعایت، ندوی روایات کاخیال، بس ایسامحسوس ہوتاجیسے شام اودھ کاجمال اورصبح بنارس کا حسن اترآیاہو، مولاناخودبھی بہت نفیس مزاج تھے،رکھ رکھاؤ سے سلیقہ جھلکتا تھا، مجلسوں سے دوررہتے تھے؛ لیکن ملنسارتھے، کم گوتھے؛ لیکن نشاط ولطف کے ساتھ درس دیتے تھے، شریف النفس اورسیدھے سادھے انسان تھے، انھیں سیاست نہیں آتی تھی، بہت جلدلوگوں کی باتوں میں آجاتے تھے، ان کی اس صفت کا غلط فائدہ اٹھا کربہت ساروں نے اپنا الوسیدھا کیا، ندوہ سے فراغت کے کئی سالوں بعد جب ندوہ میں ان سے ملاقات ہوئی توایک طالب کا نام لے کرکہنے لگے کہ اس سے بات ہوتی ہے؟ اگراس کانمبرہوتودو، پھربتایاکہ پارٹ نر شپ میں تجارت کے لئے اس نے کچھ رقم لی تھی؛ لیکن اب تک کچھ اتہ پتہ نہیں، خدامعلوم پھرکیاہوا؟

مولاناؒ چوں کہ عم محترم جناب مولانا آفتاب عالم ندوی مدظلہ کے کلاس فیلوتھے؛ اس لئے مجھے بھی اپناعزیز سمجھتے تھے، بسااوقات یہ ذکربھی کرتے تھے کہ میں آپ کے گھرآچکا ہوں، ہمارے یہاں کی تلی ہوئی مچھلی انھیں پسند تھی، ایک مرتبہ جب والد صاحب کی حج سے واپسی پر گھرجانے کی رخصت لی توباقاعدہ انھوں نے اس کا ذکرکیا اور ایک عزیز کی طرح خواہش بھی ظاہرکی کہ ممکن ہوتوتلی ہوئی مچھلی بھی لے کرآئیں، اللہ کاشکرہے کہ مولاناکی خواہش کا احترام کیاگیا۔

مولاناؒ جس طرح عربی زبان وادب کے شناورتھے، اسی طرح اردوادب میں بھی وہ درک رکھتے تھے؛ تاہم انھوں نے زیادہ ترعربی زبان کوہی اپنی جولان گاہ بنایا، ایک زمانہ میں تسلسل کے ساتھ ’’الرائد‘‘ میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے، پھرانقلاب دہرکے شکارہوگئے اور مضامین لکھنا تقریباً بند ہی کردیا، الرائد کے سابق ذمہ داراعلیٰ حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی نوراللہ مرقدہ کو آپ پربے حد اعتماد تھا، خود ان کے ہم جلیسوں نے شہادت دی ہے کہ حضرت مولاناواضح صاحب کاحکم تھاکہ جب تک الرائدکے مضامین ومشمولات پر مولانا نذیرصاحب کی نہائی نظر نہ پڑجائے، پریس میں نہ بھیجاجائے، مولاناایک اچھے مترجم بھی تھے، انگریزی زبان سے بھی براہ راست ترجمہ کرلیا کرتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک مخلص، بے غرض، صابر و شاکر، قناعت پسند، ضبط وتحمل کے پیکر، شیریں سخن اورطلبہ کے حق میں مشفق ومہربان مربی و اتالیق تھے، ابھی تک یہ یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ اب مولاناؒ ہمارے درمیان نہیں رہے؛ لیکن بہرحال قضا وقدرکے فیصلے پر ایمان وایقان ضروری ہے، اللہ تعالیٰ مولاناؒ کے تمام حسنات کوقبول فرمائے اوران کے زلات کواپنے دامن عفومیں جگہ عطا فرمائے اوران کے اہل خانہ اورہم شاگردوں کو صبرکی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی