حضرت خولہ بنت الازور کندی اسدی رضی اللہ عنہا
اسلامی تاریخ ایسے درخشاں کرداروں سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے دین، علم، جہاد اورانسانی خدمت کے مختلف میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، جن میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین کا کرداربھی ناقابل فراموش ہے، انھوں نے نہ صرف گھریلوذمہ داریوں کوحسن وخوبی کے ساتھ نبھایا؛ بل کہ بعض اوقات میدان جنگ میں وہ کارنامہ انجام دیا، جس کے سامنے مردوں کی تلواریں سرتسلیم خم کرنے پرمجبورہوگئیں، انہی عظیم المرتبت خواتین میں ’’حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ عنہا‘‘ بھی ہیں، جن کانام تاریخ کے روشن صفحات میں سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے، اگرچہ یہ عسکری شجاعت وبہادری کی بناپر مشہورہیں؛ لیکن ان کی شخصیت کا ایک اہم اورقابل توجہ پہلوان کی طبی خدمات بھی ہیں، جوانھوں نے زخمی مجاہدین کی مرہم پٹیعلاج ومعالجہ اورنگہ داشت کے ذریعہ سے سرانجام دیں،آیئے! ان کے تعلق سے جانتے چلیں۔
ان کانام ’’خولہ‘‘ ہے، یہ ’’اَزْوَر‘‘ کی بیٹی ہیں، جن کانام ’’مالک‘‘ ہے، ان کی پیدائش مکہ میں ہوئی اورانھوں نے اپنے بھائی ضراربن ازورکے ساتھ فتح مکہ کے بعداسلام قبول کیا،ان کے ایک بھائی کاتذکرہ کتابوں میں مذکورہے، جن کانام ’’ضرار بن ازور‘‘ ہے، یہ ایک بہترین شہسواراورشاعرتھے، ابن سعد لکھتے ہیں: وکان ضراراً فارساً شاعراً، وہوالذی یقول حین أسلم:
خلعتُ القد اح وعزْف القیا
ن والخمرَ تصلیۃ وابتہالاً
وکری المحبر فی غمرۃ
وجہدی علی المشرکین القتالا
وقالت جمیلۃ بددتنا
وطرّحت أہلک شتی شلالا
فیارب لاأغبنن صفقتی
وقد بعثت أہلی ومالی بِدالا
(میں نے شراب، گانے بجانے اورناچنے والیوں کوچھوڑ کر توبہ، نماز ودعا کواختیارکرلیا، میں نے اپنی خوبصورت زرہ پہن کرپوری قوت اورجد وجہد کے ساتھ مشرکوں سے جنگ کو اپنا مقصد حیات بنالیا، جمیلہ نے کہا کہ: تم نے ہمیں اوراپنے گھروالوں کو وادیوں میں بکھرا ہوا چھوڑدیاہے، پس اے مرے پروردگار! میری یہ تجارت خسارہ والی نہ ہو کہ میں نے اپنے اہل وعیال اورمال ودولت کوتیرے بدلہ قربان کردیا ہے)
انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ’’حدیث اللقوح‘‘: دع دواعی اللبن(آسائش اورآرام طلبی کوچھوڑدو) روایت کی ہے، جنگ یمامہ میں انھوں نے خوب دادشجاعت پیش کی؛ حتی کہ ان کی دونوں پنڈلیاں کٹ گئیں تووہ گھسٹ کرچلتے ہوئے قتال کرنے لگے، اس حال میں گھوڑوں نے انھیں روند ڈالا اوراس طرح انھوں نے جام شہادت نوش کیا(الطبقات الکبری:۶/ ۱۵۹، نمبرشمار:۱۱۳۸)۔
حضرت خولہؓ کی بہادری کے غیرمعمولی قصے کتابوں میں مرقوم ہیں، یہ اپنے زمانہ کی بہادرترین خواتین میں سے تھیں؛ بل کہ انھیں بطل جلیل حضرت خالد بن ولیدؓ کے مماثل قراردیا جاتاہے، مشہورسیرت نگارواقدی نے ان کی بہادری کو زبردست خراج پیش کیاہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ابھی حضرت خالدبن ولیدچنداشعارگنگنارہے تھے(جن میں بہادری کی تعریف اورشہادت وجنت کاؒ تذکرہ تھا) کہ اچانک ان کی نظر ایک شہسوارپرپڑی، جولمبے قد کے گھوڑے پرسوار تھا، اس کی ہاتھ میں ایک لمبانیزہ تھا ، چمکتی آنکھوں کے سوا پورا چہرہ ڈھکاہواتھا، اس کے ہرانداز سے اس کی سوارانہ شان وشوکت نمایاں تھی، اس نے اپنے جنگی لباس کے اوپرسیاہ لباس زیب تن کررکھا تھا، اس کی کمرپرسبز عمامہ بندھا ہواتھا، جس کا شملہ اس کے سینے پراورپیٹھ کے پیچھے لہرارہا تھا، وہ مجمع عام سے بہت آگے نکل چکا تھا، اس وقت اس کی مثال اس شعلۂ آتش کی سی تھی، جودشمن کی طرف لپک رہا ہو، جب خالد بن ولیدکی نظر اس پرپڑی تووہ بے ساختہ بول اٹھے:’’ یہ سوارتومیرے اشعارسے بھی بڑھ کرنکلا، بخدا! یہ غیرمعمولی دلیراورجانباز معلوم ہوتا ہے‘‘، پھرحضرت خالد اورباقی مسلمان بھی اس کے پیچھے روانہ ہوئے، وہ مشرکین کی صفوں تک سب سے پہلے جاپہنچا، اس وقت رافع بن عمیر طائی دشمن سے نبردآزما تھے اوراپنے رفقاء کے ساتھ بہادری سے دشمن کے مقابلہ میں جمے ہوئے تھے، جب حضرت خالدؓ اوران کے مجاہد ساتھی پہنچے، اس وقت ان کی نظر بھی اس سوارپرپڑی، وہ نہایت پرجوش انداز میں رومی لشکرپرٹوٹ پڑا، گویاوہ بھڑکتی ہوئی آگ کا کوئی بگولہ ہو، اس نے دشمن کی صفیں تہہ وبالا کردیں، ان کے مضبوط دستوں کوتتربترکردیا، پھردشمن کے قلب میں جاگھسا، ابھی چندہی لمحے گزرے تھے کہ وہ دشمن کے قلب سے اس حال میں نکلا کہ اس کے نیزہ سے خون ٹپک رہاتھا، اس نے کئی دشمنوں کو تہہِ تیغ کردیا تھا، کئی بہادروں کو خاک وخون میں ملادیاتھا، وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صفوں کوچیرتاچلاگیا، نہ اسے کسی کاڈرتھا، نہ کسی کی پروا، پھروہ دشمن کے بڑے بڑے دستوں پرپل پڑا، جس سے ان کے دل میں کھلبلی مچ گئی، حضرت رافع اوران کے ساتھیوں نے جب اس کی یہ بے مثال شجاعت دیکھی تویہ گمان کیاکہ : ’’یقیناً یہ خالد ہی ہیں، اس قدرجراء ت مندانہ حملے ان سوا کسی کے بس میں نہیں‘‘( فتوح الشام: ۱/ ۴۱-۴۰)۔
حضرت خولہ نے میدان جنگ میں صرف دادشجاعت ہی نہیں دی؛ بل کہ علاج ومعالجہ کی بھی خدمات انجام دی ہے، راجی عباس تکریتی لکھتے ہیں:
’’شام کی سرزمین کی طرف روانہ ہونے والے مجاہدین کے ہمراہ خولہ بنت ازور کندی بھی نکلیں؛ تاکہ وہ ان خدمات کو انجام دے سکے، جومسلمان خواتین مجاہدین کے لئے انجام دیا کرتی تھیں، جیسے: ان کے کپڑے صاف کرنا، کھاناتیارکرنا، پانی پلانا، زخمیوں کاعلاج کرنا اورشہداء کودفن کرنا وغیرہ‘‘ (الاسنادالطبی فی الجیوش العربیۃ الإسلامیۃ، ص:۱۰۴)۔
شیخ عکرمہ صبری اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں: ’’اسلامی عربی تہذیب کی کتب میں جن مجاہد خواتین کاذکرآیا ہے، ان میں سے رضاکارانہ طورپرنرسنگ اورابتدائی طبی امداد کے میدان میں خدمت انجام دینے والی خواتین میں خولہ بنت الازور بھی شامل ہیں‘‘۔
بالآخرشجاعت وبہادری میں افسانوی شہرت کی حامل یہ خاتون بھی اپنی حیات مستعار کی مدت پوری کرکے خلافت عثمانی کے آخری ایام میں دارآخرت کی طرف کوچ کرگئیں، اللّٰهم ارض عن هذہ الصحابیة الباسلة النارالمحرقة للأعداء، وأجزها عن الإسلام والمسلمین خیرالجزاء۔

ایک تبصرہ شائع کریں