مسجد میں نکاح: ایک تحقیقی جائزہ

مسجد میں نکاح: ایک تحقیقی جائزہ

مسجد میں نکاح: ایک تحقیقی جائزہ

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی


اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جوانسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے، اس کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے، جوفطرت انسانی کے خلاف ہو، وجہ اس کی صاف ہے کہ یہ دین اس اللہ کاہے، جس نے انسان اوراس کی فطرت بنائی ہے، ظاہرہے کہ ایسے میں وہ کوئی ایساحکم دے ہی نہیں سکتا، جوانسانی فطرت کے خلاف ہو، ’’نکاح‘‘ بھی ان احکام میں سے ہے، جوفطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے۔

نکاح دوگواہوں کی موجودگی میں ’’ایجاب وقبول‘‘ کے ذریعہ سے وجود میں آنے والا ایک ایسا رشتہ ہے، جس میں ممکن حدتک نباہنے کاعزم کیاجاتا ہے، اس کے ذریعہ سے ایک نارمل انسان کی زندگی پرسکون ہوجاتی ہے، اس کی اس فطری خواہش کی تکمیل ہوتی ہے، جواس کی اندرودیعت کی گئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اورمنتخب شدہ انسان’’نبیوں‘‘ کی سنت ہے، اس کے ذریعہ سے انسان غلط جگہوں اورغلط طریقوں سے اپنی اُس انرجی کوضائع کرنے سے بچ جاتا ہے، جسے ’’جوہرِحیات‘‘ کہا جاتا ہے۔

نکاح کے انعقاد کے لئے کسی خاص جگہ کی تعیین نہیں کی گئی ہے، لہٰذا گھرمیں، ہال میں، ہوٹل میں، پارک میں؛ حتی کہ فضا میں بھی کیا جاسکتا ہے؛ البتہ اس کے لئے مسجد کو بہترجگہ قراردیاگیا ہے؛ چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اعلنوا ھذا النکاح، واجعلوہ فی المساجد، واضربوا علیه بالدفوف’’اس نکاح کا اعلان(تشہیر) کرو،اسے مسجد میں منعقد کرو اوراس موقع پردف بجاؤ‘‘(سنن الترمذی،باب ماجاء فی إعلان النکاح، حدیث نمبر:۱۰۸۹)؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ خود امام ترمذی نے اس حدیث کوایک لحاظ سے ضعیف قراردیاہے، وہ لکھتے ہیں:ھذا حدیث غریب حسن فی هذا الباب، وعیسی بن میمون الأنصاری یضعف فی الحدیث’’اس باب میں یہ حدیث غریب حسن ہے، اورحدیث میں عیسی بن میمون انصاری کوضعیف قرار دیا گیا ہے‘‘،شیخ ناصرالدین البانی اس حدیث کے تعلق سے لکھتے ہیں: وأماتحسین الترمذی للحدیث، فإنما باعتبارالفقرۃ الأولیٰ منه، فإن لها شاهداً من حدیث عبدالله بن زبیر مرفوعاً، والترمذی إنما أوردہ فی ’’باب ماجاء فی اعلان النکاح‘‘، وأماالجملة التی بعدها فإنی لم أجد لها شاهداً، فهی لذلك منکرۃ’’امام ترمذی کاحدیث کوحسن قراردینا اس کے پہلے جملہ کے اعتبارسے ہے کہ اس کا شاہد حضرت عبداللہ بن زبیرکی مرفوع حدیث ہے، جسے امام ترمذی نے اعلان نکاح کے باب میں نقل کیا ہے، جہاں تک اس کے بعد والے جملہ کا تعلق ہے تومیں نے اس کا کوئی شاہد نہیں پایا، لہٰذا بعد والاٹکڑا منکرہے‘‘(سلسلة الأحادیث الضعیف:۲ /۴۱۰، نمبرشمار:۹۷۸)۔

یہی بات ڈاکٹرسالم بشیر شعبان اورڈاکٹرمحمد حسن محمد قرقد بھی کہتے ہیں، یہ دونوں حضرات مذکورہ حدیث کی تخریج کے بعدنتیجہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:أن عبارۃ (واجعلوہ فی المساجد) لم تثبت، وأنها جاء ت من طریق الراوی عیسی بن میمون، وقد ضعفه النقاد، ولم یوجد لها شاهد ولامتابع تتقوی به’’(اجعلوہ فی المساجد) کا جملہ ثابت نہیں، اوریہ جملہ عیسی بن میمون کے طریق سے آیا ہوا ہے، جنھیں ناقدین نے ضعیف قراردیا ہے، نیز اس کا نہ تو شاہد ہے اورنہ ہی متابع، جس کی وجہ سے اسے قوی قرار دیا جاسکے‘‘(مجلة السائل العلمیة المحکمة، السنةالثامنة عشرۃ، العدد:۳۸،یونیو ۲۰۲۴، ص:۵۷، عنوان: حدیث أعلنوا هذا النکاح، واجعلوہ فی المساجد: دراسة حدیثیة  فقهیة)۔

شیخ ابن باز بھی کہتے ہیں کہ مجھے مسجد میں نکاح کے استحباب سے متعلق کوئی واضح دلیل نہیں ملی، وہ لکھتے ہیں: …ولکن بعض اهل العلم استحبه فی المسجد، ولست أعلم دلیلاً واضحاً علی ذلك؛ إلا أن المسجد یفضل’’…لیکن بعض اہل علم نے مسجد میں نکاح کومستحب قراردیاہے؛ تاہم مجھے اس پرکوئی واضح دلیل نہیں ملی ہے؛ الا یہ کہ مسجد(میں نکاح) افضل ہے‘‘ (https://binbaz.org.sa/fatwas/2489، عنوان:مشروعیة عقد النکاح فی المسجد)، یہی رائے شیخ محمد بن صالح عثیمین کی بھی ہے، وہ فرماتے ہیں: استحباب عقد النکاح فی المسجد لاأعلم له أصلاً، ولادلیلاً عن النبی ﷺ؛ لکن إذا صادف أن الزوج والولی موجودان فی المسجد وعقد:فلابأس به’’مسجد میں عقدِنکاح کے استحباب پر مجھے نہ کوئی اصل معلوم ہے، نہ نبی ﷺ کی کوئی دلیل؛ لیکن جب مسجدمیں زوج اور گواہ موجود ہو اورنکاح منعقد کرلیا جائے توکوئی حرج نہیں ہے‘‘(لقاء الباب المفتوح، ص:۱۶۷، سوال نمبر:۱۲)، اسی طرح فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے: لیس من السنة عقد النکاح بالمساجد، والمداومة علی عقد النکاح داخل المسجد واعتقادہ من  السنة: بدعة من البدع، لماثبت عن النبی ﷺ أنه قال: من أحدث فی أمرنا هذا مالیس منه فهورد’’مسجد میں نکاح منعقد کرنا سنت نہیں ہے اور مسجد میں نکاح کاالتزام اوراس کی سنیت کااعتقاد بدعت ہے؛ کیوں کہ آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ’’جوشخص ہمارے اس دین میں نئی چیز ایجاد کرے، جواس دین کاحصہ نہیں ہے تویہ قابل رد ہے‘‘ (فتاوی اللجنة الدائمة:۱۸/۱۱۱-۱۱۲)۔

تاہم کئی حدیثیں ہمیں ایسی ملتی ہیں، جن میں یہ تذکرہ ہے کہ آپ ﷺ کے عہد میں مسجد میں نکاح منعقد ہوا ہے۔

چنانچہ اس سلسلہ میں ایک حدیث تووہ ہے، جس میں ایک خاتون اپنے آپ کونبی کریمﷺ کوہبہ کرتی ہیں، روایت اس طرح ہے: سہل بن سعد فرماتے ہیں: أتت النبی ﷺ امرأۃ ، فقالت: إنها قد وهبت نفسها لله ولرسوله ﷺ، فقال: مالی فی النساء من حاجة، فقال رجل: زوجنیها: قال: أعطها ثوباً، قال: لاأجد، قال: أعطها، ولوخاتماً من حدید، فاعتل له، فقال: مامعك من القرآن، قال: کذا وکذا، قال: فقد زوجتکها بمامعك من القرآن’’ایک خاتون نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اورکہاکہ:اس نے اپنے نفس کواللہ اور اس کے رسول کوہبہ کردیا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے عورتوں کی ضرورت نہیں ہے، توایک شخص نے کہا: اس کے ساتھ میرا نکاح کردیجئے، آپ ﷺنے فرمایا: اسے کپڑا دو، اس نے کہا: نہیں ہے، اسے دو، اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی کیوں نہ ہو، اس نے اس سے بھی معذرت کی توآپﷺ نے فرمایا: تمہیں کچھ قرآن یادہے؟ اس نے کہا : ہاں! فلاں فلاں سورتیں، آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہارے پاس موجود قرآن کے بدلے میں اس کے ساتھ نکاح کردیا ‘‘ (صحیح البخاری، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمه، حدیث نمبر:۵۰۲۹)۔

یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ اس تعلق سے حافظ ابن حجرلکھتے ہیں: وفی روایة سفیان الثوری عندالإسماعیلی: جاء ت امرأۃ إلی النبیﷺ وهو فی المسجد، فأفاد تعیین المکان الذی وقعت فیه القصة’’اسماعیلی کے نزدیک سفیان ثوری کی روایت میں ہے کہ ایک خاتون اس وقت آپﷺ کے پاس آئی، جب کہ آپﷺ مسجد میں تھے، جس سے اس مکان کی تعیین ہوجاتی ہے، جہاں یہ قصہ پیش آیا‘‘(فتح الباری:۹ /۱۷۶)۔

ایک دوسری حدیث مصنف عبدالرزاق میں ہے، وہ ’’باب النکاح فی المسجد‘‘ میں نقل کرتے ہیں: عبدالرزاق عن ابن جریج وابراهیم بن محمد عن صالح مولی التوأمة قال: رأی رسول الله ﷺ جماعة فی المسجد، فقال: ماهذا؟ قالوا:نکاح، قال:هذا النکاح لیس بالسفاح’’…رسول اللہ ﷺ نے مسجدمیں ایک جماعت کودیکھا توپوچھا: یہ کیا ہو رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: نکاح، آپ نے فرمایا: یہ نکاح ہے، سفاح (زنا) نہیں ‘‘(مصنف عبدالرزاق:۶ /۱۵۰، حدیث نمبر: (۲۹۱۳/۱۰۴۸۹)۔

ان دونوں حدیثوں سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں نہ صرف نکاح ہوا ہے ؛ بل کہ آپﷺ نے خودنکاح کرایا ہے اورمسجدمیں منعقد ہونے والے نکاح کی تائیدبھی فرمائی ہے، اس سے اتنی بات توثابت ہوہی سکتی ہے کہ مسجدمیں نکاح ایک جائز عمل ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس جائز عمل کومستحب کا درجہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس جواب کے لئے ہمیں مستحب کی تعریف پر نظر ڈالنی ہوگی؛ چنانچہ عبد الکریم نملہ مستحب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: هومافعله النبی ﷺ ولم یواظب علیه؛ بل فعله مرۃ أومرتین’’مستحب وہ عمل ہے، جسے آپ ﷺ نے بغیرپابندی کے کیا یا ایک یادومرتبہ کیا‘‘(المهذب فی علم أصول الفقه المقارن:۱/ ۲۳۶)،بعض حضرات نے اس کی تعریف اس طرح بھی کی ہے: ماطلب الشارع فعله طلباً غیرحتم’’شارع نے جس کامطالبہ غیرلازمی طور پرکیا ہو‘‘(أصول الفقه للشیخ محمدالخضری، ص:۵۴)، ان دونوں تعریفات پرغورکرنے سے یہ بات صاف طورپرمعلوم ہوجاتی ہے کہ ’’مستحب وہ عمل ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم تو دیا ہو؛ مگر لازم نہیں ٹھہرایا، یعنی نبی ﷺ نے اسے پابندی کے بغیر ایک یا دو مرتبہ انجام دیا ہو‘‘۔

  ان تعریفات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسجد میں نکاح کا انعقاد بھی نہ صرف جائز؛ بل کہ ایک مستحب عمل ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہا نے بھی اسے مستحب قرار دیا ہے؛ چنانچہ علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:ويُستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد؛ لأنه عبادة.(فتح القدير:3/ 189، ط. دار الفکر)’’مسجد میں عقد نکاح عبادت ہونے کی وجہ سے مستحب ہے‘‘، علامہ علیش مالکی لکھتے ہیں:(و) جاز (عقد نكاح) بمسجد، واستحسنه جماعة.(منح الجليل شرح مختصر خليل:8/ 86، ط. دار الفکر) ’’مسجد میں نکاح منعقد کرنا جائز ہے اور ایک جماعت نے اسے مستحسن قرار دیا ہے‘‘، امام خرشی لکھتے ہیں: يعني أنه يجوز عقد النكاح أي: مجرد إيجاب وقبول، بل هو مستحب.(شرح خليل:7/ 71)’’عقد نکاح یعنی ایجاب وقبول مسجد میں نہ صرف جائز ہے؛ بل کہ مستحب ہے‘‘، ابن صلاح شافعی لکھتے ہیں: يُستحب أن يكون العقد في مسجد.(شرح مشکل الوسيط:3/ 561، ط. دار كنوز إشبيليا)’’نکاح کو مسجد میں منعقد کرنا مستحب ہے‘‘، فقیہ بہوتی حنبلی لکھتے ہیں: ويُباح فيه عقد النكاح؛ بل يُستحب كما ذكره بعض الأصحاب.(کشاف القناع عن متن الاقناع:2/ 368، ط. دار الکتب العلمية)’’مسجد میں عقد نکاح نہ صرف مباح ہے؛ بل کہ بعض اصحاب نے اسے مستحب قرار دیا ہے‘‘، جمہورائمہ کی رائے بھی ہے؛ چنانچہ موسوعہ فقہیہ میں ہے:استحب جمهور العلماء عقد النکاح فی المسجد للبرکة ولأجل شهرته’’جمہور علماء نے مسجد میں عقدِنکاح کوبرکت اور حصول شہرت کی وجہ سے مستحب قراردیا ہے‘‘(الموسوعة الفقهیة الکویتیة:۳۷ /۲۱۴)، یہی علامہ ابن تیمیہ بھی کہتے ہیں: ویستحب ’’عقدہ فی المساجد‘‘’’نکاح مسجد میں منعقد کرنا مستحب ہے‘‘(مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیة:۳۲ /۱۸)، علامہ کے عظیم شاگرد علامہ ابن قیم بھی اسے مستحب قراردیتے ہیں، لکھتے ہیں: وممایوضحه أن عقد النکاح یشبه العبادات فی نفسه؛ بل هومقدم علی نفلها، ولهذا یستحب عقدہ فی المساجد، وینهی عن البیع’’مذکور سطورسے یہ واضح ہوگیا کہ عقد نکاح بذات خود عبادات کے مشابہ ہے؛ بل کہ یہ نفل پرمقد م ہے، اسی وجہ سے اس کے مسجد میں منعقد کرنے کومستحب قراردیاگیا ہے، جب کہ بیع سے منع کیا گیا ہے‘‘(اعلام الموقعین:۳ /۱۲۶)۔

    مذکورہ سطور سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جمہور علماء کے نزدیک مسجد میں عقد نکاح مستحب ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ ’’سنت یا مستحب سمجھ کر مسجد میں نکاح منعقد کرنا بدعت ، گمراہی اورضلالت ہے‘‘ ثبوت وروایت اور جمہور علماء کے خلاف بات ہے، سنت تونہیں؛ لیکن مستحب سمجھ کرمسجدمیں نکاح منعقد کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ بل کہ ثواب بھی ملے گا، نیز موجودہ زمانہ میں بہت ساری ان خرافات سے بچنے کاباعث بھی ہوگا، جن سے غیرمسجد میں بچنا ممکن نہیں، ہذا ماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی