نقشوں کی منظوری کے لئے رشوت دینے کا حکم
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
جب کوئی قوم اپنے دینی، تعلیمی اور فلاحی اداروں کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہو تو یہ اس کی بیداری اور خیر خواہی کی علامت سمجھی جاتی ہے، مدارس، مساجد، اسکول، یتیم خانے اور رفاہی عمارات محض اینٹوں کا مجموعہ نہیں؛ بلکہ ملت کے ایمان، علم اور اخلاق کا عملی مظہر ہوتے ہیں؛ لیکن جب ایسی عمارتوں کے قیام میں بھی رشوت جیسے گھناؤنے عمل کی دیوار کھڑی کر دی جائے تو یہ صرف اخلاقی زوال نہیں؛ بلکہ اجتماعی نظام پر بدنما داغ بن جاتا ہے،آج ہم ایسے ہی ایک نازک اور پیچیدہ مسئلے کے روبرو ہیں:
آج کل مدارس یا دوسری عمارتوں کے نقشہ کی منظوری کارپوریشن یا حکومت کے متعلقہ اداروں سے ایک خطیررقم رشوت دے کر لی جاتی ہے، کیا اس پرسود کی رقم دی جاسکتی ہے؟
اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ رشوت کسے کہا جاتا ہے؟رشوت اس شئی کو کہا جاتا ہے، جو سچ کو جھوٹ یا جھوٹ کو سچ کرنے کے لئے دیا جائے،یہ باجماع امت حرام ہے، آپﷺنے رشوت لینے اوردینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے، حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: لعن رسول اللہ ﷺ الراشی والمرتشی(ابوداود، باب فی کراہیۃ الرشوۃ، حدیث نمبر:۳۵۸۲، ترمذی، حدیث نمبر: ۱۳۳۶)’’اللہ کے رسول ﷺنے رشوت لینے اوردینے والے پرلعنت بھیجی ہے‘‘۔
لیکن اس حرمت سے اس شخص کومستثنیٰ قراردیاگیاہے، جواپنے حق کے حصول کے لئے رشوت دے، علامہ بغویؒ لکھتے ہیں:فأماإذا أعطی المعطی لیتوصل بہ إلی حق، أو یدفع عن نفسہ ظلماً، فلابأس(شرح السنۃ، باب الرشوۃ والہدیۃ للقضاۃ والعمال، حدیث نمبر:۲۴۹۳)’’جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دینے والا اپنے حق تک پہنچنے یا ظلم سے اپنے کوبچانے کے لئے رشوت دے تو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔
علامہ ابن ہمامؒ رشوت کی قسمیں تحریرکرتے ہوئے لکھتے ہیں: الرابع: مایدفع لدفع الخوف من المدفوع إلیہ علی نفسہ ومالہ حلال للدافع حرام علی الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب، ولایجوز أخذالمال لیفعل الواجب(شرح فتح القدیر، کتاب أدب القاضی:۷ /۲۳۶، ردالمحتار، کتاب القضاء، مطلب فی الکلام علی الرشوۃ والہدیۃ:۸ /۳۴)’’چوتھی قسم:اگر کوئی شخص کسی کو اس لئے پیسے دے کہ وہ اپنی جان یا مال کو کسی نقصان سے بچا سکے، تو ایسے شخص کے لئے یہ پیسے دینا جائز ہے؛کیوں کہ وہ مجبوری میں دے رہا ہے؛ لیکن جس شخص کو یہ پیسے دئے جا رہے ہیں، اس کے لئے لینا جائز نہیں؛ کیوں کہ مسلمان کو نقصان سے بچانا تو خود اس پر فرض ہے اور فرض کام کے بدلے پیسے لینا رشوت ہے، جو شرعاً حرام ہے‘‘۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:إذادفع الرشوۃ لدفع الجورعن نفسہ، أو أحد من أہل بیتہ، لم یأثم(الفتاوی الہندیۃ، کتاب الہبۃ، الباب الحادی عشر فی المتفرقات:۴ /۴۰۳)’’جب رشوت اپنے آپ یا اپنے گھروالوں کو ظلم سے بچانے کے لئے دے تووہ(دینے والا) گنہ گار نہیں ہوگا‘‘۔
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ظلم کو دور کرنے اور حق کی وصولی کے لئے رشوت دینا جائز ہے،اب مذکورہ سوال کی دوصورتیں ہیں:
۱) نقشہ کی منظوری کے لئے جورقم دی جاتی ہے، وہ حکومت کے اکاؤنٹ میں جاتی ہے۔
۲)وہ رقم حکومت کے اکاؤنٹ میں نہیں جاتی؛ بل کہ متعلقہ افراد کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتی ہے۔
پہلی صورت میں سود کی رقم سے رشوت دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ سود مال حرام ہے اورمال حرام کا حکم یہ ہے کہ اسے اس کے مالک تک پہنچا دیا جائے، علامہ شامی لکھتے ہیں: وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔(شامی:٩ /٣٨٥)اوریہاں یہی کیا جارہا ہے۔
دوسری صورت میں بھی سود کی رقم سے رشوت دینا درست ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں مال حرام کواپنے اوپر استعمال کرنا نہیں پایا جارہا ہے؛ بل کہ ایک رفاہی کام کی منظوری لی جارہی ہے، اس کا استعمال نادرست اس وقت ہوتا، جب کہ انسان اپنی ذات کے لئے کرتا، یہاں اپنی ذات کے لئے سود کا استعمال نہیں پایا جارہا ہے؛ اس لئے درست ہوناچاہئے؛ البتہ اگر رفاہی ادارہ کی بجائے اپنی ذاتی عمارت کی منظوری کے لئے رشوت دینا پڑے تو اس صورت میں چوں کہ سود کو اپنے لئے استعمال کرنا پایا جارہا ہے؛ اس لئے سود کی رقم کو رشوت کے طور پر دینا درست نہیں،ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب!
اس بابت اسلامک فقہ اکیڈ می کا فیصلہ درج ذیل ہے: دفعہ نمبر (9): سودی رقم کو کسی طرح کے بھی ذاتی مفاد میں استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
(نوٹ: راقم کی رائے سے ہر ایک کا اتفاق ضروری نہیں)
ایک تبصرہ شائع کریں