شیبو سورین:ایک خواب کی تعبیراور جدوجہد کا استعارہ
محمدجمیل اختر جلیلی ندوی
یہ دنیا اوراِس دنیا میں بسنے والی ہرچیز فانی ہے، دوام یہاں کسی شئی کونہیں، پودے اُگتے ہیں اورمرجھا جاتے ہیں، درخت تناور ہوتے ہیں اور گرجاتے ہیں، کھیتیاں لہلہاتی ہیں اورکاٹ لی جاتی ہیں، پھول کھلتے ہیں اور پژمردہ ہوجاتے ہیں، گل ونسترن مہکتے ہیں، پھربے اثرہوجاتے ہیں، کتنے کنووں کے سوتے خشک ہوگئے، کتنے ندیوں کے دھارے رک گئے، یہی حال اشرف المخلوقات’’انسانوں‘‘ کا ہے، وہ گتنی کے چند دنوں ہی کے لئے اِس دنیا میں آتا ہے، پھراسے بھی جانا پڑتا ہے، یہاں سے جائے بغیرچارہ نہیں، آج نہیں توکل، ہر ایک کی باری ہے،موت کا ایک دن معین ہے:
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
لیکن کچھ لوگ اپنے پیچھے کچھ ایسےنقوش چھوڑ جاتے ہیں، جوبعد والوں کے لئے تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں، ایسے ہی نقوش چھوڑ کرجانے والوں میں ’’جناب شیبوسورین‘‘ ہیں، یہ ایک ایسا نام ہے،جو جھارکھنڈ کی سرزمین میں ’’مزاحمت‘‘ کی علامت سمجھاجاتا ہے،وہ صرف ایک لیڈر نہیں؛ ایک عہد کا نام ہے،ایک ایسے عہد کا، جو صدیوں کی محرومیوں کا حساب مانگنے اُٹھا تھا، وہ صرف ایک سیاست دان نہیں تھے؛ بلکہ اپنی قوم کی زبان اورمحروم طبقات کا ترجمان بھی تھے، ان کی زندگی، جدوجہد اور قربانیوں سے بھری ایک طویل کہانی ہے، جو ہندوستانی سیاست کے سنگلاخ راستوں سے ہو کر گزرتی ہے۔
ان کاشمار اُن لیڈروں میں ہوتا ہے، جوزمین سے جُڑ کر زمینی زندگی کے لئے کام کرتے ہیں،ظاہرہے کہ ان کا جنم کسی محل میں تو نہیں ہوا تھا،نہ ان کے استقبال میں توپیں چلی تھیں، نہ سونے کے جھولے جھولائے گئے تھے، وہ تو ایک کسان کےگھر میں پیدا ہونے والا بچہ تھا،مٹی میں کھیلنے والا، لکڑیاں چننے والا، ندی کےکنارے بیٹھ کر سنگیت سننے والا بچہ؛لیکن اس کے دل میں ایک آگ تھی،ناانصافی کے خلاف، لوٹ گھسوٹ کے خلاف اور سب سے بڑھ کر اپنی قوم کی بے زبانی کے خلاف، پھروقت نے دیکھا کہ سینہ میں دبی چنگاری ’’شعلہ جوالہ‘‘ بن گئی، جس نے پورے چھوٹا ناگپور کے خطہ کو دہکا کررکھ دیا، وہ ’’جھارکھنڈ مکتی مورچہ‘‘ کی گرجدار آواز، عوام کے دلوں کی دھڑکن اور زمین کے بیٹے کا علمبرداربن گیا، وہ سیاست میں آیا؛ لیکن روایتی سیاست دانوں کی طرح سونے کا ہاراورکلف شدہ ادھی کپڑے پہن کرنہیں؛ بل کہ وہ اپنے ننگے پاؤں اورسادہ کپڑوں کے ساتھ اسمبلی پہنچا۔
شیبو سورین نے عام لیڈروں کی طرح صرف کھوکھلی تقریریں نہیں کیں؛بلکہ عملی میدان میں اتر کر تحریکیں چلائیں، ’’جھارکھنڈ مکتی مورچہ‘‘ کی قیادت کرتے ہوئے انھوں نے ہزاروں کسانوں، مزدوروں اور قبائلی نوجوانوں کو یکجا کیا، ان کی آواز کبھی گاؤں کے چبوترے سے بلند ہوئی، کبھی عدالتوں میں انصاف کی دہائی بنی اور کبھی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجی۔
شیبو سورین11جنوری1944 کو اس وقت کے بہار (موجودہ جھارکھنڈ) کے رام گڑھ ضلع کے گاؤں نیمرا میں پیدا ہوئے، وہ سنتھال قبیلے سے تعلق رکھتے تھے،ان کی ابتدائی تعلیم اسی ضلع میں مکمل ہوئی،نوجوانی ہی میں اُن کی زندگی میں ایک صدمہ اس وقت آیا ،جب اُن کے والد کو سود خوروں نے قتل کروا دیا،اسی واقعہ نے اُن کے دل میں استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کی چنگاری سلگا دی۔
کُرمی رہنما ونود بہاری مہتو(ضلع دھنبادکےبلیاپوربلاک کے رہنےوالے)نے 1967 میں ’’شیواجی سماج‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی، جب کہ سنتھال قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما شیبو سورین نے 1969 میں ’’سُونت سنتھالی سماج‘‘ کی بنیاد رکھی تھی، ان تنظیموں کامقصد علاقائی شناخت اورقبائلی خود مختاری کے لئے جدوجہد کرناتھا،بعد ازاں ونود بہاری مہتو، شیبو سورین اور بائیں بازوکے معروف رہنما کامریڈ ڈاکٹر اے، کے، رائے نے مل کر’’جھارکھنڈ مکتی مورچہ (J.M.M)‘‘ کی بنیاد رکھی، اس جماعت کا باقاعدہ قیام جھارکھنڈ کے 19ویں صدی کے مشہور قبائلی مجاہد’’برسا منڈا‘‘ کے یوم پیدائش پر کیا گیا، جنھوں نے موجودہ جھارکھنڈ کے علاقوں میں برطانوی استبداد کے خلاف بہادری سے مزاحمت کی تھی،4 فروری 1973 کو جماعت کی قیادت کا باقاعدہ اعلان ہوا، جس میں ونودبہاری مہتو پارٹی کے پہلے صدر بنے، جب کہ شیبو سورین کوجنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا، اس وقت کے دیگر نمایاں رہنماؤں میں کامریڈ اے، کے، رائے(جو پارٹی کے صنعتی و کوئلہ مزدور طبقے کے شعبے کے سیکریٹری تھے)، نِرمَل مہتو(جو جھارکھنڈ کے اہم ٹریڈ یونین رہنما تھے)اورٹیکلَال مہتو(جو بعد کے ادوار میں ایک مؤثر سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرے) شامل تھے، ’’جھارکھنڈ مُکتی مورچہ‘‘ کا مقصد قبائلی حقوق کی بازیابی تھا؛ چنانچہ شیبوسورین نے کسانوں کو ان کی زمینوں پر دوبارہ قبضہ دلانے اور سود خوروں کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے زبردست جدوجہد کی، اس دور میں وہ خودساختہ عدالتیں لگا کر فوری فیصلے کیا کرتے تھے۔
23 جنوری 1975 کو انھوں نے مبینہ طور پر ’’باہر سے آنے والے‘‘ غیر قبائلی افراد کے خلاف ایک مہم چلائی، جس کے نتیجے میں کم از کم گیارہ افراد کی جانیں گئیں، اس واقعہ میں اُن کے خلاف کئی مقدمات دائر ہوئے،طویل قانونی عمل کے بعد انہیں 6 مارچ 2008 کو ایک اہم مقدمے سے بری کر دیا گیا، شیبو سورین نے 1977 میں پہلا لوک سبھا الیکشن لڑا؛ لیکن کامیاب نہ ہو سکے، 1980 میں پہلی مرتبہ دُمکا حلقے سے پارلیمان کے رکن بنے، 1989، 1991 اور 1996 میں بھی اسی حلقے سے منتخب ہوئے، 2002 میں راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوئے؛ لیکن بعد ازاں ضمنی انتخاب جیت کر دوبارہ لوک سبھا پہنچے، 2004 میں وہ ایک بار پھر اسی نشست سے کامیاب ہوئے۔
منموہن سنگھ کی حکومت میں انھوں نے تین مرتبہ کوئلہ وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں، 2004 میں جب اُن پر چیروڈیہہ قتل کیس میں گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا تو انھیں وزات سے استعفیٰ دینا پڑا، وہ کچھ عرصہ زیر زمین بھی رہے، بعد ازاں ضمانت پر رہائی ملی اور دوبارہ مرکزی کابینہ میں شامل کر لئے گئے،2 مارچ 2005 کو انھیں جھارکھنڈ کا وزیراعلیٰ بنایا گیا؛ لیکن 11 مارچ کو ایوان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہنے پر محض 9 دن میں استعفیٰ دینا پڑا، اس کے باوجود وہ 2008 سے 2010 تک دو مرتبہ مزید ریاست کے وزیراعلیٰ رہے، جو ان کی سیاسی طاقت کی گواہی دیتا ہے۔
شیبو سورین نےآج 4 اگست 2025 کو دہلی کے ایک اسپتال میں 81 برس کی عمر میں وفات پائی، ان کا انتقال نہ صرف جھارکھنڈ؛بل کہ پورے ہندوستانی قبائلی سماج کے لئے ایک دور کے خاتمے کے مترادف ہے۔
نوے کی دہائی میں میرے والد صاحب(جناب عبدالجلیل انصاری صاحب، جنھیں ان کے سیاسی دوست’’جلیل بابو‘‘ کہا کرتے تھے) مورائی ڈیہہ کولیری کے یونین لیڈر تھے اور علاحدہ ریاست جھارکھنڈ کے لئے مہم چلانے والے تحریک کاروں میں بھی شامل؛ بل کہ اس کے مرکزی لیڈروں:ونود بہاری مہتواورشیبوسورین جیسے قدرآورلیڈروں کے ساتھ اسٹیج بھی شیئرکرتے تھےاورجھارکھنڈ کی علاحدگی پرخوب خوب تقریر بھی کرتے تھے، جھارکھنڈ آندولن کے زمانہ میں کئی مرتبہ شیبوسورین ہمارے گھربھی آئے، اس آندولن کے نتیجہ میں ایک مرتبہ والدصاحب جیل بھی گئے، پھر سیاست سےان کا دل اس طرح اچاٹ ہوا کہ دوبارہ مڑکربھی اس کی طرف نہیں دیکھا، کئی مرتبہ شیبوسورین نے یہ خبربھی بھی بھجوائی کہ ’’اگرجلیل بابو آتے تومیں پارٹی کاٹکٹ ان کودیتا‘‘؛ لیکن وہ سیاست کی خرابیوں کودیکھ کرایسے اوب چکے تھے کہ پھوٹی آنکھ بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے۔
میرے سنجھلے چچا جناب نظام الدین انصاری صاحب ایک مرتبہ کاواقعہ بیان کرتے ہیں کہ شیبوسورین نے ملنے کے لئے والدصاحب کو بوکارواپنے گھرپربلایا، جس وقت یہ دونوں وہاں پہنچے، کافی بھیڑ تھی، گیٹ کیپرنے ان کواندرجانے سے روکا، والدصاحب نے کہا: جاکرگروجی سے کہہ دوکہ مورائی ڈیہہ سے جلیل بابوآئے ہیں، گیٹ کیپرگیا اورجیسے ہی بتایا تو شیبو سورین نے کہا: ارے ان کوجلدی اندربھیجو، تم نے ان کوروکا کیوں؟
آج شیبوسورین کے انتقال کی خبرسن کر والدصاحب (جن کاانتقال ۳۱/مئی ۲۰۲۴ءکوہوگیاہے، اللہ ان کی تربت کوٹھنڈی رکھے)بھی یادآئے کہ دونوں ایک ہی زمانہ کے اورایک ہی مقصد پرکام کرنے والے لوگ تھے؛ لیکن ایک نے سیاست کے گلیاروں سے قدم کھینچ لیا، جب کے دوسرےنے اسی سیاست کے ذریعہ سے اپنالوہا منوایا، سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرکام کے لئے ہرایک کوپیدانہیں کیا ہے، جس کوجس کام کے لئے پیداکیا، اس نے وہی کام انجام دیا۔
بہرحال! جھارکھنڈ کے علاحدہ ریاست بننے میں اگرچہ کے بہوتوں کا خون شامل ہے؛ لیکن اس آندولن کے سپریمو لیڈر کی حیثیت سے شیبوسورین ہی ثابت قدم رہے، ونودبہاری تو پہلے ہی ایک ہوائی سفرمیں چل بسے، باقی افراد بھی اس دم خم کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکے، شیبوسورین ہی آگے بڑھتے رہے؛ حتی کہ ۱۵/ نومبر۲۰۰۰ء میں ’’جھاکھنڈ‘‘ کے نام سے ایک علاحدہ ریاست وجودمیں آئی،یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ آج اگر جھارکھنڈ ایک علاحدہ ریاست ہے تو اس کی پشت پر شیبو سورین جیسے کرداروں کا لہو ہے، ان کی شخصیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جدوجہد اگر سچی ہو اور مقصد اگر واضح ہو، تو راستے خود بخود بن جاتے ہیں، وہ صرف ایک سیاسی رہنما نہیں، ایک تحریک کا نام ہیں اور تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، وہ وقت کے ساتھ نئی صورتوں میں زندہ رہتی ہیں،شیبو سورین کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ خواب اگر مٹی سے اگیں، تو وہ فولاد بن جاتے ہیں اور جو لیڈر اپنے لوگوں کی زبان، لباس اور دکھ سکھ میں جیتا ہے، وہ کبھی مر نہیں سکتا۔
ایک تبصرہ شائع کریں