حرام میراث سے حلال کاروبار کرنے کاحکم

حرام میراث سے حلال کاروبار کرنے کاحکم

حرام میراث سے حلال کاروبار کرنے کاحکم

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ایک شخص اِس وقت حلال کاروبار کر رہا ہے؛لیکن اس کے والد یا دادا پہلے حرام (مثلاً: سودی) کاروبار میں شامل تھے، اس شخص کو معلوم ہے کہ اسے جو جائیداد اور مال وراثت میں ملا ہے، وہ انہیں کے حرام کاروبار سے آیا ہےاور وہی مال لگا کر اب وہ حلال روزی کما رہا ہے؛لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ حرام مال کب کمایا گیا تھا:آزادی سے پہلے یا بعد میں؟اب سوال یہ ہے: کیا اس شخص کی موجودہ کمائی حلال شمار ہوگی یا حرام؟

یہ سوال بہت اہم ہے اور بہت سارے مسلم بھائیوں کے ذہنوں میں نہ صرف یہ سوال آتا ہے؛ بل کہ بعض علاقوں میں عملی طور پر ایسا ہی ہورہا ہے؛ اس لئے اس سوال کا تفصیلی اور تشفی بخش جواب ضروری ہے؛ تاکہ اطمینان قلب حاصل ہوسکے، لہٰذا اس کا تفصیلی اور علمی جواب درج ذیل ہے:

ایسے شخص کی کمائی حلال ہے؛ کیوں کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کے اندر دوچیزوں کی صلاحیت اوراس کی دو مختلف حیثیتیں ہوں، جیسے: ولایتِ نکاح کا ایک مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگرکسی صغیرہ لڑکی کاولی اس کا چچازاد بھائی ہو اور وہ چچازاد بھائی اپنی اِس چچازاد بہن سےخود نکاح کرلے توجائز ہے، یہاں اس کی دوحیثیتیں بتلائی گئی ہیں:فیکون أصیلاً من جانب، ولیاً من جانب أخر(اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح:۱ /۲۵۹)’’وہ ایک جانب سے اصیل(بذاتِ خود) ہوتاہے، جب کہ دوسری جانب(لڑکی کی جانب)سے وکیل‘‘ ۔

اس طرح کی واضح مثال حدیث شریف میں وارد ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:اُتی النبی ﷺ بلحم، فقیل: تصدق علی بریرۃ، قال: ھولھا صدقة، ولنا هدیة(بخاری، باب قبول الهدیة، حدیث نمبر: ۲۵۷۷، سنن النسائی، باب خیار الأمة، حدیث نمبر:۳۴۴۷)’’آں حضرت اکے پاس گوشت لایا گیا اور بتلایا گیاکہ یہ بریرہ کوصدقہ کیاگیاہے، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اس کے لئے صدقہ اور ہمارے لئے ہدیہ ہے‘‘۔

اس حدیث کے ضمن میں علامہ نورالدین سندیؒ لکھتے ہیں:(ولناھدیة) فبین أن العین الواحدۃ یختلف حکمها باختلاف جهات الملک(حاشیة السندی علی النسائی:۶ /۱۶۲)’’(اورہمارے لئے ہدیہ ہے) اس میں واضح کیا کہ عینِ واحد کا حکم جہت ِملک کے اختلاف سے مختلف ہوتاہے‘‘۔

آپ ﷺ پرصدقہ حرام تھا، اسی لئے آپ صدقہ قبول نہیں کرتے تھے، حضرت بریرہ ؓ پر حرام نہیں تھا؛ اس لئے ان کے پاس صدقہ بھیجا گیا تھا، آں حضرتﷺ کے سامنے گوشت کے اس صدقہ والے تحفہ کوپیش کیاگیا، جواصل کے اعتبارسے آپ کے درست نہیں تھا؛ لیکن آپﷺنے جہتِ ملک کے بدلنے سے حکم کے بدلنے کی بات بتلائی اورفرمایا کہ یہ ہمارے حق میں(حضرت بریرہؓ کی طرف سے)ہدیہ ہے، علامہ عینیؒ لکھتے ہیں:المتصدق علیه زال عنها وصف الصدقة، وحلت لکل واحد ممن کانت الصدقة محرمة علیه(شرح أبی داود، باب فی فقیریهدی إلی غنی من الصدقة(حدیث نمبر:۱۷۷۵):۶ /۴۰۸)’’متصدق علیہ سے صدقہ کی صفت ختم ہوگئی اورہراس شخص کے لئے جائز ہوگیاجس پرصدقہ حرام تھا‘‘۔

مذکورہ مسئلہ کی مزیدوضاحت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک فتوے سے ہورہی ہے:عن ابن مسعود أنه سئل عمن له جار یأکل الرباعلانیة، ولایتحرج من مال خبیث یأخذہ، یدعوہ إلی طعام، قال: أجیبوہ ، فإنما المهنألکم، والوزرعلیه(جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،ص:۷۱) ’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ جس کا پڑوسی علانیہ سود کھاتا ہو اورمال خبیث لینے میں ہچکچاتا نہ ہو، وہ (اگر) کھانے کی دعوت کرے(توکیاکرنا چاہئے)انھوں نے جواب میں فرمایا: اسے جواب دو(قبول کرو) کہ تمہارے لئے یہ خوش گوار ہے اور گناہ اُس پرہے‘‘۔

علامہ شامی ’’منیۃ المفتی‘‘ کے حوالہ سے رقم طراز ہیں:مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل؛ ولكن لا يعلم الطالب بعينه ليرد عليه حل له الإرث، والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه(رد المحتار، مطلب فيمن ورث مالا حراما:۷ /۳۰۱)’’ایک شخص کا انتقال ہوا، جس کے وارث جانتے ہیں کہ اس کے والد حرام طریقہ سے مال کماتا تھا؛ لیکن بعینہ اس حرام مال کے مالک کاپتہ نہیں کہ اس کولوٹاسکیں، تواس کے لئے یہ وراثت حلال ہے؛ تاہم افضل یہ ہے کہ اس مال سے احتیاط برتے اور صدقہ کردے‘‘۔

مذکورہ عبارات سے یہ بات آشکارہوگئی کہ اس کی کمائی حلال ہے اوراس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ احتیاط برتتے ہوئے صدقہ کرنا افضل ہے،ھذاماعندی، واللہ أعلم بالصواب!

اس سلسلہ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا فیصلہ(بتیسواں سیمینار منعقدہ: جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ، پلاپٹی، تامل ناڈو، بہ عنوان: ’’حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل‘‘) درج ذیل ہے(: (ج):’’اگر وارث نے وراثت میں ملے ہوئے مالِ حرام سے کاروبار کیا تو اس کی آمدنی حلال ہوگی؛البتہ حرام مال کے بقدر اس پر صدقہ کرنا واجب ہے‘‘۔

خلاصہ یہ کہ اگر کسی شخص کو وراثت میں وہ مال ملے، جو اس کے والد یا کسی اور نے ناجائز (حرام) طریقے سے کمایا ہو اور اس شخص نے اسی مال سے نیا حلال کاروبار شروع کیا ہو، تو اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے لئے حلال ہوگی، بشرطیکہ وہ خود حرام کمائی میں شریک نہ ہو اور وہ مال اس کے لیے صرف وراثت  کے ذریعے منتقل ہوا ہو۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی