بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
ترجمانی:محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
ہم نے اخباروں میں بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کی تصاویر براعظم افریقہ کی دیکھی ہیں؛ حالاں کہ یہ وہ ملک ہے، جس کے وسائل سے فائدہ اٹھا کر یوروپی ممالک نے معاشی ترقیوں کا زینہ طے کیاہے؛ لیکن اس کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو جہالت، غربت اور بھوک کی تاریکیوں میں ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ چھوڑ دیا؛ بل کہ دنیا کے سامنے ایسی تصویربنائی، جس میں دنیا کے نقشہ پر سب سے غریب ملک افریقہ نظرآتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں بھوک صرف ایک انسانی مسئلہ نہیں رہی؛ بلکہ اسے داخلی اور خارجی پالیسیوں کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جہاں کسی قوم کو کھانے پینے سے محروم رکھنا سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے،اگرچہ بعض اوقات بھوک واقعی کسی ناگہانی انسانی آفت کا نتیجہ ہو سکتی ہے؛لیکن اکثر اوقات یہ ظالمانہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہوتی ہے،جن کا مقصد عوام کو روٹی کے ایک نوالے کا محتاج بنا کر انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا ہوتا ہے، بھوکا رکھنے کی پالیسی کو خون کے پیاسے ظالم حکمرانوں نے جنگوں میں بطور ہتھیار استعمال کیا ہے،یہ اس بات کی علامت ہے کہ بھوک اب محض فطری آفت نہیں؛بلکہ ظالمانہ جنگی چال کا روپ اختیار کر چکی ہے۔
تاریخِ انسانی کے قدیم اور جدید ادوار میں کئی قحط سالیاں رونما ہو چکی ہیں، جن میں سے بعض نہایت ہولناک اور المناک رہی ہیں،ان میں چند نمایاں مثالیں یہ ہیں:1915ء میں شام کا قحط،1932ء میں سوویت یونین کا قحط،اسی سال چین کا عظیم قحط،1944ء میں مراکش (المغرب) میں قحط،1945ء میں ویتنام میں قحط،1990ء کے بعد عراق میں غذائی بحران،1998ء میں سوڈان میں قحط،2016ء میں یمن کا بدترین غذائی بحران،اور 2025ء میں غزہ، جو بھوک اور محاصرے کے دہانے پر کھڑا ہے، خود ہمارے ملک میں 1943-44ء میں بنگال (موجودہ بنگلہ دیش، ہندوستان کا مغربی بنگال، بہار اور اڑیسہ ) میں ایک خوفناک قحط پڑا تھا،جس میں تقریباً 30 لاکھ افراد فاقہ کشی سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس وقت عالمی نقشہ پر ’’غزہ‘‘ وہ خطہ ہے، جہاں اپنی ظالمانہ اور سیاہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے، اسرائیلی حکام مسلسل اقوامِ متحدہ کی ذیلی ایجنسی — فلسطینی مہاجرین کی امداد و بحالی کے لیے قائم ’’اونروا‘‘ — UNRWA کو غزہ میں خوراک داخل کرنے سے روک رہے ہیں اور یہ سلسلہ چار ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ہے،ان کا یہ عمل محض ایک انسانی بحران نہیں؛ بلکہ جان بوجھ کر کی جانے والی سیاسی بنیادوں پر قائم بھوکا رکھنے کی پالیسی ہے، جس کا مقصد ایک پوری قوم کو کمزور کرنا اور دباؤ میں لانا ہے۔
غزہ کا محاصرہ اب ایک خوفناک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے،آبادی کا ایک نمایاں حصہ قحط کی پانچویں اور آخری درجہ (Famine Phase 5) تک پہنچ چکا ہے، —یہ وہ مرحلہ ہے، جس میں جسمانی کمزوری، غذائی تباہی اور اندرونی اعضا کی ناکامی اس حد تک بڑھ جاتی ہےکہ اگر مستقبل میں خوراک میسر بھی آ جائے تو بھی ان کی صحت کو بحال کرنا ممکن نہیں رہتا،یہ صورت حال ایک انسانی المیہ ہی نہیں؛بلکہ عالمی ضمیر کے لیے ایک شرمناک امتحان ہے۔
21 جولائی 2025ء کو بین الاقوامی فلاحی اداروں کے اتحاد’’آکسفام‘‘کی ترجمان ڈاکٹر هدیل القزاز نے انکشاف کیا کہ غزہ باضابطہ طور پر غذائی سلامتی کے پانچویں درجہ میں داخل ہو چکا ہے، —یہ درجہ سب سے سنگین سطح ہے، جو عملاً قحط کے اعلان کے مترادف ہوتا ہے،اس مرحلے تک پہنچنا معمول کے مطابق بین الاقوامی ایمرجنسی کے نفاذ کا تقاضا کرتا ہےاور عالمی برادری کی جانب سے فوری امدادی مداخلت اور متحدہ انسانی کوششوں کی ضرورت کو جنم دیتا ہے،یہ اعلان اس بات کی واضح دلیل ہے کہ غزہ اب ایک انسانی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، جسے نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔
19 جولائی 2025ء کو غزہ کی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ غزہ میں قحط کی صورتِ حال تباہ کن حد تک پہنچ چکی ہے،رپورٹ کے مطابق، دو ملین سے زائد افراد شدید بھوک کا سامنا کر رہے ہیں،جبکہ دنیا بھوک سے بلکتے بچوں کی چیخ و پکار سے اپنی سماعت بند کیے بیٹھی ہے،اس المناک صورتحال کے نتیجے میں 71 معصوم بچے بھوک اور غذائی قلت کے باعث شہید ہو چکے ہیں،یہ اعداد و شمار صرف ایک انسانی بحران نہیں؛بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر ایک بھیانک سوالیہ نشان ہیں۔
یقیناً سب سے سخت جنگوں میں سے ایک ’’خالی آنتوں کی جنگ‘‘ہے،کیوں کہ کوئی بھی انسان اس وقت تک ایک مستحکم زندگی نہیں گزار سکتا ،جب تک اسے کم از کم اتنا کھانا میسر نہ ہو،جو اس کی بنیادی بھوک کو مٹا سکے اور جسم کو زندگی کے قابل رکھ سکے،بھوک نہ صرف جسمانی اذیت ہے؛بلکہ یہ انسان کی عزت، وقار اور شعور کو بھی مفلوج کر دیتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بھوکا رکھنے کے اس ہتھیار کو توڑنے کی کنجیاں خود ایک عرب سرزمین میں موجود ہیں،اگر چاہا جائے تو مصری سرزمین پر واقع رفح بارڈر کے راستے اس ہتھیار کو ناکام بنایا جا سکتا ہےاور وہ امدادی سامان داخل کیا جا سکتا ہے، جو ہزاروں انسانوں کو یقینی موت سے بچا سکتا ہے؛لیکن افسوس کہ سیاسی رکاوٹیں، مجرمانہ خاموشی اور باہمی مصلحتیں انسانی جانوں پر بھاری پڑ رہی ہیں۔
غزہ میں قحط کے سبب اجتماعی اموات کا سانحہ اب ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے، جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا، سوال یہ ہے کہ ہم اس شرمناک حقیقت کو کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ یہ وہ ننگ ہے، جو ہمیں دہائیوں تک تاریخی طور پر شرمندہ کرتا رہے گا،جب ہم نے اہلِ غزہ، اہلِ ہاشم کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا اور ہمارے ہاتھ میں صرف دعاؤں اور’’لاحول ولاقوۃ‘‘ کے ورد کے سوا کچھ نہ تھا!
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ غزہ کے عوام کس طرح مہلک بھوک کی شدت سے سڑکوں پر گر رہے ہیں،ایک ایسی قحط سالی، جس نے ان کے جسم و جان کو چور کر دیا ہے،جبکہ اس دردناک منظر کے باوجود قریبی عرب ممالک مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، —ایک ایسی مجرمانہ خاموشی، جو نہ صرف انسانیت؛ بلکہ اخوتِ عربیہ پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
اسی پس منظر میں ابو عبیدہ — جو کتائب القسام (جو کہ تحریکِ مزاحمتِ اسلامی ’’حماس‘‘کا عسکری ونگ ہے) کے عسکری ترجمان ہیں — نے تین روز قبل ایک ایسی دھواں دار اور بےباک اپیل کی،جس میں انہوں نے عرب ممالک کو ایسی سخت صداقت سے مخاطب کیا جیسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا،انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ:’’امتِ اسلامیہ اور عرب قیادت، اس کے دانشور اور علمائے کرام — ان سب کی گردنیں ان لاکھوں بے گناہوں کے خون سے بوجھل ہو چکی ہیں،جنہیں ان کی خاموشی اور بےحسی کے سبب بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا‘‘،پھر سوال کیا:’’کیا ایک عظیم اور باوقار امت — کھانے، پانی اور دوا جیسی بنیادی ضروریات — ان بھوکے اور محصور انسانوں تک نہیں پہنچا سکتی؟کیا وہ اس خون کے سیلاب کو نہیں روک سکتی، جو عرب و اسلام کی سرزمین پرصرف ایک صہیونی سلطنت کے قیام کے لیے بہایا جا رہا ہے‘‘؟!یہ صراحت دل کو چیر دینے والی ہے، جو صرف سیاسی قیادت ہی نہیں، بلکہ ہر باشعور انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے کے لیے کافی ہے۔
یہ قحط ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی ایجنسی’’اونروا‘‘ نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کے پاس غزہ کے تمام باشندوں کے لیے تین ماہ سے زائد عرصے کا خوراکی ذخیرہ موجود ہے،یہ تمام امدادی سامان گوداموں میں محفوظ ہے، — جن میں مصر کے شہر العریش میں واقع گودام بھی شامل ہے — اور یہ سامان داخلے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے،ایجنسی نے واضح کیا ہے کہ امدادی سپلائی میسر ہے، نظام فعال ہیں اور ترسیل میں کوئی تکنیکی رکاوٹ موجود نہیں،اس کے باوجود، اگر یہ سامان داخل نہیں ہو رہا،تو یہ ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ بھوک نہیں،بلکہ بھوکا رکھنا ہے — اور یہ فیصلہ سیاسی ہے، انسانی نہیں۔
’’اونروا‘‘(اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی) نے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کے تمام بارڈر کھولے جائیں، محاصرہ ختم کیا جائےاور اس کی امدادی ٹیموں کو اپنا کام انجام دینے کی اجازت دی جائے؛تاکہ وہ ان لوگوں تک فوری امداد پہنچا سکیں، جو شدید ترین ضرورت اور خطرے سے دوچار ہیں، جن میں ایک ملین (دس لاکھ) بچے بھی شامل ہیں،جو اس وقت بھوک، بیماری اور خوف کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
’’اونروا‘‘نے اس حقیقت کی بھی تصدیق کی ہے کہ غزہ کی بیشتر خاندانوں کو آٹا تک میسر نہیںاور لوگ کئی کئی دن تک بغیر کسی کھانے کے زندہ رہنے پر مجبور ہیں،ایجنسی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں 500 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں،جس کے باعث عام شہریوں کے لیے کھانے پینے کی بنیادی چیزیں خریدنا بھی ناممکن ہو گیا ہے، یہ صورت حال نہ صرف ایک انسانی المیہ کو جنم دے رہی ہے؛ بلکہ غزہ کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل چکی ہے،جہاں زندگی کے آثار ختم ہوتے جا رہے ہیں اور موت کا سایہ ہر در پر منڈلا رہا ہے۔
چنددنوں قبل، فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (AFP) نے ایک اقوامِ متحدہ کے عہدیدار کے حوالے سے اطلاع دی کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں ان بھوکے عوام پر فائرنگ کی، جو عالمی غذائی پروگرام کی امدادی قافلے سے خوراک لینے کی کوشش کر رہے تھے تو سوال یہ ہے کہ یہ انسان اور انسانیت کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے،کیا دنیا اتنی اندھی اور بہری ہو چکی ہے کہ بھوکے انسانوں پر گولی چلنے پر بھی خاموش ہے؟
یہ عصرِ حاضر کا وہ ہولناک ترین جرم ہے، جو اسرائیل غزہ کے خلاف انجام دے رہا ہےاور تاریخ اسے انسانیت اور زندہ انسانوں کے خلاف بدترین جرائم میں سے ایک کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی،اسی لمحے تاریخ یہ بھی ثبت کرے گی کہ دنیا کی غالب اکثریت — بالخصوص عرب اور اسلامی ممالک — غزہ کو تنہا چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور وہ صرف ٹی وی اسکرینوں پر لمحہ بہ لمحہ نشر ہونے والی اس تباہی کو خاموشی سے دیکھتی رہ گئی،جبکہ غزہ کے لوگ بھوک، بیماری اور بمباری کے درمیان آہستہ آہستہ دم توڑتے رہے،یہ سطریں صرف تاریخ کا حصہ نہیں بنیں گی؛ بلکہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کا آئینہ بھی بنیں گی، جو بتائے گا کہ ہم نے ظلم کے وقت کیا کیا… اور کیا نہیں کیا؟؟!!
ایک تبصرہ شائع کریں