عورتوں کے لئے پائلٹ کی ملازمت

عورتوں کے لئے پائلٹ کی ملازمت

عورتوں کے لئے پائلٹ کی ملازمت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آج کل خواتین ہوائی جہاز کی پائلٹ بھی بن رہی ہیں اور حکومتیں ان کوترجیح دیتی ہیں، فلائٹ میں سیکوریٹی بہت زیادہ ہوتی ہے، پائلٹ کی ہرچھوٹی بڑی حرکت کیمرے میں ریکارڈ ہوتی رہتی ہے؛ البتہ پائلٹ کے کیبن میں دوافراد ہوتے ہیں، دونوں کی بیٹھک میں فاصلہ بھی ہوتا ہے، اگرخاتون پائلٹ ہو تو ہوسکتا ہے کہ ایک مرد اورایک عورت پائلٹ کیبن میں رہیں تو کیا مسلمان خواتین اس ملازمت میں شامل ہوسکتی ہیں؟

اس سوال کے جواب سے قبل تین باتوں کاذکرمناسب معلوم ہوتا ہے:

۱- عورتوں کی ملازمت کاحکم۔ 

۲- ملازمت کے لئے حدودوشرائط ۔

۳- ملازمت کا دائرۂ کار، کہ ان تینوں باتوں کوجان لینے کے بعد مسئلہ کوسمجھنا آسان ہوگا۔

عورتوں کی ملازمت کاحکم

جہاں تک پہلی بات کاتعلق ہے تو اس بارے اصل یہ ہے کہ عورتوں پراخراجات کی ذمہ داری عمومی حالت میں نہیں ڈالی گئی ہے؛ اس لئے ان کے لئے شوقیہ ملازمت مناسب نہیں؛ البتہ اگرضرورت داعی ہوتوپھرگنجائش ہے، ڈاکٹرعبداللہ بن محمد طیار، ڈاکٹرعبداللہ بن محمد مطلق اورڈاکٹر محمد بن ابراہیم کی مشترکہ تالیف’’الفقہ المیسر‘‘ میں ہے:

الأصل للمرأۃ ھوقرارھا فی بیتھا، قال تعالیٰ:وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى(الاحزاب:۳۳)، فدورھا الأساسی فی الحیاۃ وتربیة أبنائھا ورعایتھم، وإعداد الأجیال للأمة؛ لکن قدتحتاج المرأۃ إلی عمل؛ وذلک نتیجة لظروف قد تطرأ لھا فی حیاتھا، کأن یموت الزوج أو أن یمرض مرضاً یقعدہ عن العمل، أو یکون راتب الزوج لایکفی الأسرۃ، أو غیر ذلک من الأمور التی تجعل المرأۃ محتاجة إلی العمل، فإذا کانت المرأۃ فی حاجة للعمل، جاز لھا ذلک؛ لکن ذلک له شروط(الفقه المیسر، نوازل الاختلاط:۱۱/۷۹).

عورت کے لئے اصل یہ ہے کہ وہ گھروں میں ہی رہیں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:’’اپنے گھروں میں ٹھہری رہواورجاہلیت اولیٰ کی طرح بن ٹھن کرگھر سے باہر نہ نکلو‘‘، لہٰذا دنیاوی زندگی میں عورتوں کااصل کردار بچوں کی دیکھ ریکھ ، ان کی تربیت اورامت کے لئے نئی نسل کوتیارکرناہے؛ لیکن بسااوقات عورت کوملازمت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا مداراس پر طاری ہونے والے احوال ہوتے ہیں، مثلاً: شوہرکاانتقال ہوجائے یا وہ ایسا بیمارہوجائے کہ کام نہ کرسکے، یاپھرشوہرکی تنخواہ گھرکے اخراجات کے لئے ناکافی ہوجائے تواس طرح کے احوال میں عورت کوملازمت کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا ضرورت کی صورت میں عورت کے لئے ملازمت کی گنجائش توہے؛ لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ‘‘۔

ملازمت کے حدود

جہاں تک ملازمت کے لئے حدود وشرائط کا ذکر ہے تووہ درج ذیل ہیں:

۱-عمل اورکام بذات خود مباح ہو، ایساکام نہ ہو، جس کی شریعت میں اجازت ہی نہ ہو۔

۲-ذاتی یاقومی ضرورت اس عمل کامتقاضی ہو؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: ...أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ.(صحيح البخاری، باب التفسير،حدیث نمبر: 4795،صحیح مسلم باب السلام، حدیث نمبر: 2170،مسنداحمد، حدیث نمبر: 23769)’’اپنی ضروریات کے لئے تمہیں نکلنے کی اجازت دی گئی ہے‘‘۔

۳-شوہریا ولی کی اجازت ہو، ان کی اجازت کے بغیر درست نہیں، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ[التحريم6].

اس کی تفسیر میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں: تأمرهم بطاعة الله وتنهاهم عن معصية الله، وأن تقوم عليهم بأمر الله وتأمرهم به وتساعدهم عليه فإذا رأيت لله معصية ردعتهم عنها وزجرتْهُم عنها.(تفسیر ابن کثیر: ۸ /۱۸۹، ط:دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۹۷۱ء )’’تم انہیں اللہ کی اطاعت کا حکم دیتے ہو اور اللہ کی نافرمانی سے روکتے ہو، اور ان پر اللہ کے حکم کے مطابق نگرانی کرتے ہو، انہیں اللہ کا حکم دیتے ہو اور اس پر ان کی مدد کرتے ہو، پس جب تم اللہ کی نافرمانی کو دیکھو تو انہیں اس سے باز رکھو اور سختی سے روکو‘‘۔

اسی طرح حدیث ہے:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.(صحيح البخاری، باب الجمعۃ، حدیث نمبر: 893، مسلم فى الإمارة، حدیث نمبر: 1829)’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، امام (حکمران) نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، خادم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا‘‘،راوی کہتے ہیں:اور میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: مرد اپنے والد کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا‘‘۔ 

۴-حقوق کی ادئے گی میں کوتاہی نہ ہو، اس کام کی وجہ سے شوہر اوربچوں کے حقوق میں کسی طرح کی کوتا ہی نہ ہو، اگرکوتا ہی ہوگی توپھراجازت نہیں ہوگی۔

۵-کام عورت کی طبیعت اوراس کے مزاج کے موافق ہونا چاہئے، یعنی کام ایسا ہونا چاہئے، جوعورت کی ذات کے مناسب ہو، ایسانہ ہوکہ سماج اورمعاشرہ میں اس کام کے لئے عورت کوناموافق سمجھا جاتاہو، یا ایسانہ ہوکہ اس کی ذات کی اس میں تذلیل ہوتی ہو۔

۶-لباس وپوشاک میں شریعت کی رعایت ہو، عورت جب کام کے لئے جائے تو اس کالباس شرعی اصول وضوابط کے مطابق ہونا چاہئے، اگر پوشاک اس کے مخالف ہوتوپھراجازت نہ ہوگی۔

۷-خوشبوکے استعمال کے بغیر ہو، جب عورت کام پرجائے تو خوشبوکا استعمال کرکے نہ جائے کہ یہ فتنہ کے ابھارنے کا ذریعہ بنتا ہے، اگرکوئی خوشبو کے ساتھ جائے گی توپھراس کے لئے اجازت نہ ہوگی، حدیث میں ہے، حضرت ابوموسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ.(أبو داود فى كتاب الترجل، حدیث نمبر: 4173، الترمذى فى الأدب، حدیث نمبر: 2786)’’جو بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے اس نیت سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبو محسوس کریں، تو وہ زناکار عورت ہے‘‘۔

۸-چال ڈھال میں اعتدال ہو،بےحیائی نہ پائی جاتی ہو، اگرچال میں لچک ہو، جس سے فتنہ کا اندیشہ ہوتوپھراجازت نہیں ہوگی۔

۹-فتنہ کااندیشہ نہ ہو، عورت کوکام پرجانے کی اجازت اسی وقت ہوگی، جب کہ فتنہ وفساد کااندیشہ نہ ہو، اگرایساہوگا تواجازت نہیں ہوگی۔

۵-کام عورت کی طاقت سے باہر کانہ ہو؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہرایک کوا سکی طاقت کے لحاظ سے مکلف کیا ہے، ارشا دہے : لایکلف اللہ نفساً إلا وسعھا ، لہٰذا اگرکام اس کی طاقت سے باہر کاہوگا توگنجائش نہیں ہوگی۔

۱۱- مردوں کے ساتھ خلوت اوراختلاط نہ پایاجاتا ہو، اللہ کے رسولﷺ کاارشاد ہے: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ.(صحيح البخاري فى كتاب الجهاد، حدیث نمبر: 3006، مسلم فى الحج، حدیث نمبر: 1341)’’عورت کسی مرد کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے‘‘۔(تفصیل کے دیکھئے:عَــمَلُ المَـــرْأَةِ فِي مِيْــزَانِ الشَّـرِيْعَةِ الإِسْـلامِيَّةلعماد حسن أبو العينين، ضَوَابِطُ خُرُوجِ المَرْأَةِ للعَمَلِ،ص: ۴۸ -۵۵، عمل المرأۃ فی میزان الشریعۃ الإسلامیۃلأم حبیبۃ البریکی ، ص:۱۱۲ - ۱۱۹)

ملازمت کا دائرۂ کار

اب رہی بات تیسری بات کی کہ عورت کی ملازمت کا دائرۂ کار کیا ہے؟ کیا ہرشعبہ میں یہ اجازت ہوگی؟ یا بعض شعبوں میں اس کی گنجائش ہوگی اور بعض شعبوں میں نہیں؟ اس سلسلہ میں اصولی بات تویہی ہے کہ عورتوں کی ساخت ایسی نہیں ہے کہ وہ تمام شعبوں میں عمل کرسکیں، توظاہرہے کہ ہرہرشعبہ ان کا دائرۂ عمل نہیں ہوگا، جوشعبے ان کے دائرۂ عمل میں ہوں گے، وہ درج ذیل ہیں:

۱-تدریس: یہ شعبہ بہت اہم ہے اورخواتین کے لئے بہت مناسب بھی ہے، بالخصوص لڑکیوں کی تدریس کی جاسکتی ہے، اسی طرح چھوٹی بچیوں اور بچوں کی بھی تدریس کی جاسکتی ہے، خالص لڑکیوں کے اسکول میں بھی جاسکتے ہیں اورگھر پربھی یہ کام ہوسکتا ہے، باہرجاکرتدریس کی صورت میں شرائط وحدود کاخیال رکھنا ضروری ہے۔

۲-ڈاکٹری:یہ شعبہ بھی بہت اہم ہے اورآج کے زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ اس کی ضرورت پڑتی ہے، اس میں بھی خواتین اوربچوں کے علاج سے متعلق رہناہی مناسب ہے۔

۳-نرسنگ:اس شعبہ کوبھی اختیار کیا جاسکتا ہے، خصوصیت کےساتھ ایسی جگہوں پر، جہاں خواتین ڈاکٹرس ہوں اورخواتین کاعلاج ہوتا ہو، جہاں مردوں سے سابقہ نہ ہو یا کم سے کم ہو۔

۴-سلائی / کڑھائی:خواتین کے لئے یہ بہت محفوظ کام ہے کہ گھرمیں بھی آسانی کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا ہے اوراس کے ذریعہ سے روزگار حاصل کیا جاسکتا ہے۔

۵-دست کاری:اپنے ہاتھوں سے بہت ساری چیزیں بناکر کسی کے ذریعہ سے بازارمیں فروخت کیا جاسکتا ہے اورآج کے زمانہ میں ہاتھ سے بنائی چیزوں کو آن لائن بھی فروخت کیاجاسکتا ہے۔

۶-طباخت: خصوصیت کے ساتھ شہروں میں اس کی ضرورت پڑتی ہے، جہاں لوگ دفاتر میں کام کرتے ہیں یا تعلیم سے وابستہ رہتے ہیں، انھیں گھرکا بنا ہوا اچھا کھاناچاہئے ہوتا ہے، ہوٹل کے کھانوں سے وہ تھک چکے ہوتے ہیں، بہت ساری خواتین یہ کام بھی کرسکتی ہیں اوراس ذریعہ سے بھی کمائی کرسکتی ہیں۔

۷-کمپیوٹر:آج کی دنیا کمپیوٹرپرچل رہی ہے، اس کے ذریعہ سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔

۸- پیوٹی پارلر:خواتین آج کل پیوٹی پارلر کے ذریعہ سے بھی کمائی کرسکتی ہیں اورکررہی ہیں، اس کے لئے بھی باقاعدہ کورس ہے، لہٰذا اس شعبہ میں بھی کام کرسکتی ہیں۔

۹- حضانت:آج کی مصروف زندگی میں بسااوقات ماں باپ دونوں اپنے اپنے کاموں میں بزی رہتے ہیں، انھیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، جوان کے بچے کی دیکھ بھال کردیں، اس کے لئے باقاعدہ پروفیشنل طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہےاور حضانت کے باقاعدہ اسکول بنایاجاسکتا ہے۔

۱۰- تالیف /ترجمہ/کتابت:ایک اہم کام، جسے پڑھی لکھی خواتین انجام دے سکتی ہیں، وہ تالیف، ترجمہ اورکتابت وغیرہ ہے، اسے بھی پروفیشنل طریقہ سے انجام دیا جاسکتا ہے اوردینے والی خواتین انجام دے بھی رہی ہیں۔

۱۱- فنون لطیفہ:بہت ساری خواتین فنون لطیفہ میں ماہر ہوتی ہیں، وہ اپنی اس مہارت کافائدہ اٹھاسکتی ہیں اورباقاعدہ پروفیشن بناسکتی ہیں۔

۱۲- آن لائن: یہ دنیا بہت وسیع ہے، خریدوفروخت سے لے کر تدریس تک، سارے کام اس طریقہ پرکئے جاسکتے ہیں اور کرنے والی خواتین کررہی ہیں اورمیرے خیال سےواقعی اگرضرورت مندہوتومذکورہ تمام سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔(عمل المرأۃ فی میزان الشریعۃ الإسلامیۃلأم حبیبۃ البریکی ، ص:۱۴۳ومابعدہ‘،عَــمَلُ المَـــرْأَةِ فِي مِيْــزَانِ الشَّـرِيْعَةِ الإِسْـلامِيَّةلعماد حسن أبو العينين، ضَوَابِطُ خُرُوجِ المَرْأَةِ للعَمَلِ،ص: ۵۹ومابعدہ‘ )

اب ان تین مباحث کے بعد ہم اصل سوال کے جواب کی طرف لوٹتے ہیں کہ پائلٹ کی نوکری کرنے کی اجازت اورعدم اجازت کا حکم انہی مذکورہ حدود وقیود کے دائرہ میں لگے گا، اگرچہ ہروقت کیمرے کی نگاہ پہ یہ رہتی ہیں؛ لیکن کیمرہ کی نگاہ میں غمزہ اورعشوہ کا قیدہوناضروری نہیں،  مرد کوپائلٹ ہونے کی صورت میں خلوت اور تنہائی پائی جائے گی، جو ظاہر ہے کہ فتنہ کا بڑا ذریعہ ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے توچوں کہ ملازمت کے لئے جوشرطیں بتلائی گئی ہیں، وہ عام طور پرمفقود ہوتی ہیں، لباس اسلامی نہیں ہوتا، اگراسلامی ممالک کے پائلٹ کالباس اسلامی ہوتومردپائلٹ کے ساتھ جاناپڑتا ہے؛ اس لئے پائلٹ کی نوکری درست نہیں ہونی چاہئے؛ البتہ :

۱- اگرتمام شرطوں کے ساتھ ہو اورخاتون پائلٹ کاساتھی خاتون ہی ہو تواس کی گنجائش ہونی چاہئے۔

۲- بسااوقات فائٹرپلین میں بھی یہ نوکری ہوسکتی ہے تو اس میں تمام شرطوں کے ساتھ قومی حاجت اورجہاد وغیرہ کی ضرورت( کہ آج کل انھیں چیزوں کے سے جنگ لڑی جاتی ہے) پیش نظر بھی گنجائش ہونی چاہئے، ہذا ماعندی، واللہ أعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی