بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ
(آہ! حضرت مولاناغلام وستانوی رحمہ اللہ علیہ)
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
ابھی ہم ایک غم سے نکلنے نہ پائے تھے کہ دوسرے غم نے ہمیں اپنے استبدادی پنجوں میں جکڑلیا، جی ہاں! ہفتہ بھر پہلے (۲۸/اپریل ۲۰۲۵ء)ہی کی تو بات ہے، حضرت مولانا عاقل صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمیں داغ مفارقت دئے گئے اورآج (۴/مئی ۲۰۲۵ء)خادم القرآن، عامرالمساجد اورسلطان المدارس حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب بھی ہم سے بچھڑ گئے اور اس اداسے بچھڑے کہ رُت ہی بدل گئی، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں داغ مفارقت دینے اورہم سے بچھڑکرجانے والے یہ دونوں ہی حضرات ایک ہی مئے خانہ کے بادہ خوارتھے، پیرانِ مغاں بھی تقریباً دونوں کو ایک ہی ملے، قطب الاقطاب حضرت شیخ زکریا کاندھلویؒ اورناظم اعلیٰ مظاہر علوم حضرت مولانا شاہ اسعداللہ رام پوریؒ، یہ وہ پیرانِ مئے کدہ ہیں، جن کی نگاہِ کیماء اثرنے نہ جانے کتنے کال بنجر دلوں میں عرفانی گل بوٹے کھلادئے، کتنے بھٹکے ہوئے آہوؤں کو سوئے حرم کاراستہ دکھلایا، پژمردہ کاہ وگیاہ میں شبنمی موتی جڑنے والے اورمسِ خام کوکندن بنانے والے کیماء داں تھے یہ لوگ، ان کے پاس لوگ کاواک دل لے کرآتے اور نور و نکہت سے لبریز کرکے جاتے، حیران وسرگرداں آتے اور پرسکون ومطمئن ہوکر جاتے، ان کے پاس وہ بادۂ گلفام تھا، جو بھی پیتا، بے خود وسرشارہوجاتا، وہ کام کا بن جاتا، بقول ذوقؔ:
پیرمغاں کے پاس وہ دارو ہے، جس سے ذوقؔ
نامرد مرد، مردِ جواں مرد ہوگیا
مولاناغلام وستانوی صاحبؒ ایک فرد کا نام نہیں تھا؛ بل کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور اگرعلمی دنیا کے لحاظ سے دیکھا جائے توانھیں موجودہ زمانہ کا یا کم از کم گجرات کا ’’سرسید‘‘ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا، انھوں نے صرف ایک ’’جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا‘‘ نہیں قائم کیا؛ بل کہ اداروں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں پرائمری اورہائی اسکول، بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالج، پالی ٹیکنک کالج، فارمیسی کالج، یونانی کالج، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، لڑکے اورلڑکیوں کے لئے ہاسٹلس اور مریضوں کے علاج کے لئے اسپتال کے علاوہ ہزاروں کی تعدادمیں مساجدکی تعمیرہے۔
یہ اگرچہ ایک دینی جامعہ کے فارغ التحصیل تھے؛ لیکن سوچ وفکران کی بغداد کے ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ اوراندلس کے ’’جامعہ قرطبہ‘‘کے فارغ التحصیل جیسی تھی، انھوں نے اگرچہ مدرسہ نظامیہ اورجامعہ قرطبہ کا نصاب سبقاً نہیں پڑھاتھا؛ لیکن تاریخ کے طورپران کے نصاب کونہ صرف انھوں نے پڑھ رکھا تھا؛ بل کہ اپنی پوری زندگی اسی کی تکمیل میں انھوں نے صرف کردی، اسی وجہ سے ہم اپنے عہد کے دینی جامعات کے بانیان سے ہٹ کردیکھتے ہیں کہ انھوں نے فرض عین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرض کفائی کی تعلیم کابھی خوب بند وبست کیا، انھوں نے اس حقیقت کوپالیاتھا کہ:’’خلافت ارضی کی تکمیل یا اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مسلمان اپنے دین پرثابت قدم رہتے ہوئے جدیدعلوم وفنون یاسائنس اورٹیکنالوجی میں بھی کمال حاصل کرکے دین ِابدی کی ہرحیثیت سے بقاواستحکام کا سامان پیدا نہ کرلیں‘‘(قرآن ، سائنس اورمسلمان، از: محمدشہاب الدین ندوی، ص:۴)، یہی وجہ ہے کہ انھوں جدیدعلوم وفنون اور سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے نہ صرف ادارے قائم کئے؛ بل کہ نصاب ایسابنایا، جس میں کالج کے طلبہ کے لئے دینی تعلیم اور مدارس کے طلبہ کے لئے بنیادی انگریزی، سائنس اور کمپیوٹرکی تعلیم کولازم قراردیا گیا۔
مولاناامت کے ان بے لوث خادمین میں تھے، جو’’نیکی کر، دریامیں ڈال‘‘پریقین رکھتے تھے، اسی کے نتیجہ میں اللہ نے ان سے وہ کام لیا، جودوسروں سے نہیں لیا، وذلک فضل اللہ، یؤتیہ من یشاء، انھوں نے کام نہیں؛ بل کہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے اورصرف اپنے علاقہ کوہی انھوں نے سیراب نہیں کیا؛ بل کہ ملک کے طول وعرض میں ان کے فیضان کی بارش نہ سہی؛ لیکن ’’پھوار‘‘توضرور پڑی ہے، ہرصوبہ میں کوئی نہ کوئی ادارہ یا مسجد ایسی مل ہی جائے گی، جس کی تعمیر میں انھوں نے حصہ لیا ہے۔
مولاناعلم دوست، اہل علم کے قدردان، بڑوں کی عزت واحترم کرنے والے، چھوٹوں پرمہربانی وشفقت نچھارکرنے والے، ملنسار، فیاض، خوش اخلاق وخوش اطوار، حلیم وبردبار، ایک اچھے مدرس، ایک بہترین مربی، ایک مفکر، ایک مدبر، ایک منتظم، ایک مصلح اورایک خطیب تھے، تقریرلچھے دار تونہیں؛ لیکن پراثرہوتی تھی، مولاناکی زندگی کودیکھ اورپڑھ کر ایسالگتا ہے کہ اگریقین محکم اورعمل پیہم ہوتوجہادزندگانی میں کامرانی یقینی ہے۔
حضرت مولاناغلام محمدوستانویؒ صاحب یکم جون ۱۹۵۰ء(مطابق ۱۳۷۰ھ)کوکوساڑی، ضلع سورت(گجرات) میں پیداہوئے، ۱۹۵۲ یا ۱۹۵۳ء میں ان کاخاندان کوساڑی سے نقل مکانی کرکے’’وستان‘‘ آگیا، جس کی مناسبت سے آپ ’’وستانوی‘‘ کہلائے، مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حفظ کی تعلیم حاصل کی، پھرمدرسہ شمس العلوم بڑودہ میں داخلہ لیا، پھر۱۹۶۴ء میں دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر میں داخل ہوئے ، جہاں آٹھ سال تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۷۲ء میں مدرسی تعلیم کی تکمیل کی، بعدازاں جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور آئے اور ۱۹۷۳ء وہاں سے دورۂ حدیث شریف سے سندفراغت حاصل کی، مدرسی تعلیم کے بعدانھوں نے ایم بی اے (M.B.A)کی ڈگری بھی لی، تعلیم سے فراغت کے بعد تدریسی زندگی کاآغاز دارالعلوم کنتھاریہ سے کیا، جہاں انھوں نے تقریباًبارہ سال تک تدریسی فرائض انجام دئے، اس دوران دعوت وتبلیغ کاکام بھی برابرجاری رہا، ان کا تبلیغی سفرہی ’’جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا‘‘ کے قیام کاذریعہ بنا۔
ایک مرتبہ تبلیغی سفر میں اکل کوا آئے اور قیام مکرانی پلی کی مسجد میں کیا، دوران قیام من جانب اللہ یہ خیال پیداہوا کہ یہاں کام کیا جائے، اس تعلق سے اکابرکوخطوط لکھے، جن کی طرف سے مثبت جواب آیا، پھریہاں کی آمد ورفت بڑھ گئی، سب سے پہلے اکل کوا کے ذمہ دار حاجی محمد یعقوب صاحب نے تین ایکڑ زمین دی، پھرحاجی سلیمان صاحب نے تین ایکڑ زمین دی، کچھ دنوں کے بعدان کے نانا(مقیم ساؤتھ افریقہ) نے بیس ہزار روپے بھجوائے، جس کی مدد سے مولانا اکل کوا کے مکرانی پھلی محلہ میں مسجد سے لگ کرعارضی عمارت بنوائی اوراس طرح ۱۹۸۰ء میں وہاں ایک مکتب کا نظام شروع ہوا، ۱۹۸۱ء میں دارالاقامہ کا نظم شروع کیاگیا، یہی مکتب اس وقت ایک یونیورسٹی کے روپ میں ہمارے سامنے کھڑا دعوت نظارہ دے رہا ہے۔
مولانا کاروحانی تعلق ابتداء ’’حضرت شیخ ‘‘ شیخ الحدیث مولانا زکریاکاندھلویؒ سے تھا، حضرت شیخ کی وفات کے بعد ولی کامل حضرت مولاناقاری صدیق صاحب باندوی علیہ الرحمہ سے قائم ہوا، بعدازاں محدث کبیرشیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ سے منسلک ہوگئے اور مئے معرفت پیتے بھی رہے اورپلاتے بھی رہے، ۱۱/ جنوری ۲۰۱۱ء کوعظیم عالمی دانش گاہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے مہتمم بنائے گئے؛ لیکن زیادہ دنوں تک وہاں کی آب وہوا راس نہیں آئی اوربہت مختصر مدت کے بعد ۲۳/جولائی ۲۰۱۱ء کو وہاں سے مستعفی ہوجاناپڑا؛ تا ہم اس مختصرمدت میں بھی کئی اہم خدمات انجام دیں۔
کل(۴/ مئی ۲۰۲۵ء) کے دوپہربعدجب واٹس ایپ میں ان کے انتقال کی خبرآئی تودل بہت ملول ورنجورہوا کہ ہفتہ بھرکے اندرہی امت کے سر سے دو اہم محسنین کاسایہ اٹھ گیا، ادھر مولانا کئی مہینوں سے بیمارچل رہے تھے اورخبرایسی آرہی تھیں، جن سے دھڑکا لگاہوا تھا، یہ دھڑکا کل حقیقت کاروپ دھارگیا، مولانا کی وفات یقینا امت کے لئے عظیم خسارہ ہے، بڑی مدت کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے مستانوں کوروئے زمین پر بھیجتاہے، جومے خانہ کانظام بدل کررکھ دیتاہے، انھیں مستانوں میں ایک یہ’’وستان کا مستان‘‘ تھا، جس نے واقعی طورپرنظام میکدہ کوبدل ڈالا، اللہ تعالیٰ ان کی قبرکونورسے بھردے اورامت ان کانعم البدل عطافرمائے، آمین یارب العالمین!!!
ایک تبصرہ شائع کریں