یہ سانحہ مرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا
(آہ! حضرت مولاناعاقل صاحب نوراللہ مرقدہ)
محمدجمیل اختر جلیلی ندوی
بات ایک آدھ سال کی لگتی ہے؛ حالاں کہ بیس سال گزر چکے ہیں، سن دوہزار چارمیں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤسے عالمیت کی تکمیل کرنے کے بعد بہت سارے طلبہ کی طرح انتشارذہنی کے ساتھ میں نے بھی فضیلت فی الحدیث میں داخلہ لیا اورقیام کے لئے ڈالی گنج کی ببووالی گلی میں ایک کمرہ کرایہ پرلیا؛ تاکہ کمپیوٹرکے ساتھ ساتھ انگلش کوچنگ بھی کرسکوں؛ لیکن ابھی ایک ہفتہ ہی گزراتھا کہ میں نے درخواست دے کرفضیلت سے اپنانام محو کروا لیا، اب ارادہ تھا بہت سارے رفیقوں کی طرح تیاری کرکے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں داخلہ لینے کا؛ لیکن …
بقرعید سے کچھ قبل، عم محترم جناب مولاناآفتاب عالم ندوی مدظلہ دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے(عم محترم ندوہ کے سابق استاذ ہیں اورسال میں تقریباً چارپانچ دفعہ ندوہ میں حاضری کامعمول ہے)، دوتین دن قیام رہا، دوران قیام بس سرسری سی ملاقات رہی، تعلیم والیم سے متعلق کوئی خاص تذکرہ نہیں، بس پوچھ کر خاموش رہے، پھرواپسی میں اپنے ساتھ کانپورریلوے اسٹیشن لے کرگئے اوروہاں سمجھایاکہ جس تعلیمی راستے پراب تک تم نے سفرکیا ہے،یک لخت اسے مت چھوڑو، اسی پرآگے بڑھو، اگرتمہیںاِس راستہ پرچلنا نہیں تھا تو یہاں تک سفرکرکے کیوں آئے؟ پنجم سے ہی راستہ الگ کرلیتے وغیرہ۔
شایدیہ قبولیت کی گھڑی تھی، جامعہ ملیہ کا ارادہ، خواب بن گیا اورمیں عم محترم کے مشورہ سے بقرعید کے بعد جامعہ مظاہرعلوم(دارجدید) سہارنپور آگیا، داخلہ کا توسوال ہی نہیں تھا کہ اس کے لئے مہینہ شوال کا طے ہے، لہٰذا سماعت کرنے کا حکم ہوااور قیام کے لئے انتخاب ’’مسجدشاہ بونبی‘‘کا ہوا، جہاں کے امام مولاناوقاری ضیاء الدین صاحب مظاہری دامت برکاتہ‘ تھے(الحمدللہ آج بھی وہ اس مسجد کے امام ہیں اورحضرت مولاناعاقل صاحب کے تومعتقد سے بڑھ کرعاشق صادق)، انہی کے توسط سے حضرت مولانا عاقل صاحب کی خدمت میں رسائی ہوئی اورانھوں نے دورۂ حدیث میں سماعت کی اجازت بھی دیدی۔
جامعہ مظاہرعلوم میں اس وقت مشیخت حدیث کی مسند پرامیرالمومنین فی الحدیث حضرت مولاناشیخ یونس صاحب جونپوریؒ(۲/اکتوبر۱۹۳۷-۱۱/جولائی۲۰۱۷ء/۲۵/رجب۱۳۵۵ھ -۱۴/شوال ۱۴۳۸ھ) جلوہ افروز تھے، جن کاعلمی طنطنہ ہر صاحب علم کے دل پرچھایاہواتھا، صحیح بخاری وصحیح مسلم کا درس دیتے تھے، درس کیا ہوتا تھا؟ موتیوں کی جھڑی لگی رہتی تھی، گوہرودرنایاب رولتے رہتے، کبھی ترجمۃ الباب پر طویل ترین کلام فرماتے، شارحین بخاری کی آراء کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کی آراء بھی بیان کرتے، پھراپنی رائے رکھتے، کبھی مسائل کی تنقیح کرتے اور بے جھجھک کمزورمسئلہ کی کمزوری کوواضح کرتے، ان کے یہاں حدیث کی صحت وقوت اورضعف وناتوانی کی بڑی رعایت وقدردانی تھی، یہی وجہ ہے کہ دسیوں مسائل میں فقہ حنفی کے برخلاف وہ رائے رکھتے تھے، جس کی وجہ سے متشددین جزبزہوتے رہتے تھے، علامہ ابن تیمیہ، علام ابن حزم اورعلامہ ابن ہمام رحمہم اللہ کے بڑے قدردان تھے، چہرہ پر نور تھا، نگاہ بھرکردیکھنے کی کسی کوجسارت نہیں تھی، صاحب کشف وکرامات تھے، ان کی مجلس میں جانے سے طلبہ عام طورپرگھبراتے تھے، انھیں گھبرانے والوں میں میں بھی تھا، ظاہرہے کہ ایسے میں خصوصی تعلق قائم ہونے سے رہا، اللہ تعالیٰ ان کی تربت کوٹھنڈی رکھے، آمین!
جامعہ مظاہرعلوم میں خصوصیت کے ساتھ دوجلیل القدر اساتذہ سے نہ صرف تعلق رہا؛ بل کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کرکچھ سیکھنے اورکچھ خدمت کرنے کابھی موقع میسرہوا، ان میں ایک حضرت مولانازین العابدین صاحب معروفی(پ:۲/اکتوبر۱۹۳۲ء، و:۲۸/اپریل ۲۰۱۳ء)نوراللہ مرقدہ ہیں، یہ تھے سادگی کے پیکرتمثال؛ لیکن علم کے جبال،بالخصوص ماہرعلم رجال، انھوں نے حضرت مولانا علی میاںؒ کی کتاب’’المرتضیٰ‘‘ پر بھی علمی نقد کیاہے، علامہ طاہرپٹنی ؒکی کتاب’’ المغنی‘‘ پر تحقیق وتعلیق کی، ان کی ایک کتاب تاریخ پربھی مطبوع ہے، انھوں نے محدث کبیرحضرت مولاناعبدالجبارصاحب معروفی کی عظیم شاہکار’’امدادالباری شرح بخاری‘‘ کا تکملہ لکھا، شرح عقائد نسفی کی عربی زبان میں شرح لکھی، مدرسہ مظہرعلوم (بنارس) میں ۱۵/ سال تک شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے،مدرسۃ الاصلاح سرائے میں۸/ سال تک درس دیتے رہے، بانڈی پورہ،( کشمیر)،دارالعلوم سبیل السلام(حیدرآباد) اور گجرات کے چھابی میں بھی انھوں نے تدریس کا فریضہ انجام دیاتھا، پھراخیرعمرمیں جامعہ مظاہرعلوم میں تخصص فی الحدیث کے شعبہ کے ۱۸/ سال تک صدررہے، انھوں نے ہمیں محدث اعظمی حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی نوراللہ مرقدہ کی سندحدیث بھی شیخ سنبل کی ’’کتاب الاوائل‘‘ کے ذریعہ سے عطافرمائی، عصربعدان کی مجلس میں شریک ہوا کرتاتھا، جس میں کوئی نہ کوئی کتاب پڑھی جاتی تھی، ایک آدھ بارمجھے بھی اس مجلس میں پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، اللہ تعالیٰ ان کی قبرکونورسے بھردے، آمین!
دوسری شخصیت حضرت مولاناعاقل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تھی، مولانا کاگھرمیرے مظاہرجانے کے راستہ پرتھا، لہٰذا میں آدھ گھنٹہ قبل مسجدسے نکل آتااورحضرت کی تالیفی ومطالعتی حجرہ میں(جومکتبہ خلیلہ سہارنپورکے بالائی حصہ میں تھا) پہنچ جاتا، بسااوقات خدمت کابھی موقع میسر ہو جاتا، پھروہاں پر موجود طالب علم کے ساتھ مولاناکو لے کردرس کے لئے نکلتے، ایک طالب علم انھیں رکشہ سے لے کرجاتا اورمیں پیادہ پا، ایک آدھ بارحضرت کے ہمراہ رکشہ پربیٹھ کر ساتھ مدرسہ تک جانے کی بھی سعادت ملی ہے، واپسی میں حضرت اکثر پیدل ہی تشریف لاتے؛ بل کہ بسااوقات ساتھ میں تدریسی کتابیں بھی ہوتیں۔
مولانادِکھنے میں چھوٹے تھے، لباس وپوشاک میں موٹے جھوٹے تھے؛ لیکن علمی اعتبارسے ان کاقدبہت بلندتھااورکیوں نہ ایسا ہوتا؟کہ پورا خانوادہ ہی آپ کاعلمی تھا، گویاآپ کی گھٹی میں علم، بالخصوص علم حدیث پڑا ہوا تھا، آپ کے والد مولانا حکیم محمدایوب مظاہری سہارنپوری(۱۳۱۸-۱۴۰۷ھ / ۱۹۰۰- ۱۹۸۶ء) تھے، جوخود بلند پایہ عالم وفاضل، علوم حدیث کے شناور اورطبیب وجراح تھے، انھوں نے شرح معانی الآثارکے رجال پر’’تراجم الأحبار من رجال شرح معانی الأثار‘‘ کے نام سے مبسوط کام کیا، جو چار جلدوں اور ۲۳۲۰/صفحات پر مشتمل ہے، ان کی دوسری کتاب’’تصحیح الأغلاط الکتابیۃ الواقعۃ فی النسخ الطحاویۃ‘‘ ہے، جس میں طحاوی کی اٹھارہ سو اغلاط کی تصحیح کی، ان کی تیسری کتاب’’تصویب التقلیب الواقع فی تہذیب التہذیب‘‘ ہے، انھوں نے طحاوی پر حاشیہ بھی چڑھا یا ہے، والدصاحب کے علاوہ صرف حضرت شیخ زکریا کاندھلویؒ کا نام لینا ہی کافی ہوگا، جن کی صحبت میں آپ نے تربیت پائی ہے، گویا علامہ اقبال کے شعر:’’باپ کاعلم نہ بیٹے کواگرازبرہو - پھرپسرقابل میراث پدرکیوں کرہو؟‘‘میں اگرترمیم کرکے یوں کہا جائے:’’باپ کا علم جوبیٹے کواگرازبرہو -پھر پسرقابل میراث پدرکیوں نہ ہو‘‘ تواس کے حقیقی مصداق حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمۃ اللہ قرارپائیں گے۔
آپ نہایت ذہین وفطین اورعلمی استعدادکے مالک تھے، علمی صلاحیت طالب علمی کے زمانہ سے ہی جھلکتی تھی؛ بل کہ بقول مولانا شاہد صاحب حسینیؒ دورانِ تعلیم طلبہ کی ایک جماعت نے اپنے طورپراس کے وقت ناظمِ مدرسہ سے درخواست کی تھی کہ:’’ہم مولاناعاقل صاحب سے باقاعدہ ہدیہ سعیدیہ پڑھناچاہتے ہیں‘‘(تذکرہ دانشوران سہارنپور، ص: ۴۹۷)،طلبہ کی جانب سے ’’ایک طالب علم ‘‘ کے حق میں اس طرح کی درخواست اس کی قوت مطالعہ، ذہانت وفظانت اوربلندپایہ علمی استعداد کی بین ثبوت ہے۔
مولانہایت حلیم وبردبارتھے، خوش اطوار، خوش اخلاق اورملنساربھی، طلبہ کی ہمت افزائی بھی خوب کرتے، خصوصاً پڑھنے لکھنے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ان کا معاملہ بہت مشفقانہ ہوتا تھا، اپنی کتابیں بھی ہدیہ میں دیاکرتے تھے، مجھے خوب یاد ہے، میرے زمانہ میں جب ’’الدر المنضود‘‘ چھپ کرآئی، جواس وقت پانچ جلدوں میں تھی، توکئی طلبہ کو ہدیۃً عنایت فرمائی، میں بھی ہدیہ پانے والے خوش نصیبوں میں تھا۔
طلبہ ان کے گھنٹہ کابے صبری سے منتظرہوتے، خصوصاً اس لئے بھی کہ شیخ یونس صاحبؒ نے جن حنفی مسائل پر محدثانہ تنقید کی ہے، ان پریہ فقیہانہ دلائل پیش کریں گے، تدریس کا انداز دل موہ لینے والا ہوتا، شایدہی کوئی طالب علم ہو، جوآپ کے درس سے غیرحاضررہناپسندکرتا ہو، آپ کا درس نہایت منضبط اوردلائل سے بھرپورہوتاتھا، جس میں کثرت مطالعہ کی جھلک، قوت استدلال کی لَلَک، شیوخِ حدیث کی صحبت کی چمک اورفقہ حنفی کے ساتھ خصوصی تعلق کی مہک نظرآتی تھی، طریقۂ بیان ایساہوتاکہ ادنیٰ طالب علم کے ذہن میں بھی محفوظ ہوجائے۔
آپ کی پیدائش ۹/شعبان ۱۳۵۶ھ مطابق ۱۵/اکتوبر۱۹۳۷ء کوسہارنپورمیں ہوئی، خاندانی دستورکے مطابق قرآن پاک کا حفظ کیا، جس کی تکمیل ۱۹/ ذی الحجہ ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۸/ اکتوبر ۱۹۵۰ء میں ہوئی، ۲۲/ شوال ۱۳۷۲ھ میں مظاہرعلوم میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کرکے شعبان ۱۳۸۰ھ میں سند فراغت حاصل کی، ۳۰/ جمادی الثانیۃ ۱۳۸۱ھ میں بلامعاوضہ مظاہرعلوم میں معین مدرس مقررکئے گئے، ایک سال بعد شوال۱۳۸۲ھ میں باقاعدہ استاذ کی حیثیت سے ان کی تقرری عمل میں آئی، گویاآپ کی کل مدت تدریس۶۴/سال پرمحیط ہے، جن میں آپ نے شرح تہذیب، نورالانوار، مختصرالمعانی، سلم العلوم، جلالین، مشکوٰۃ المصابیح وغیرہ کی تدریس کافریضہ انجام دیا اوراس خوبی سے دیاکہ طلبہ آپ کے گرویدہ رہے۔
۱۳۸۷ھ میں دورۂ حدیث کے استاذ بنائے گئے اورپہلی مرتبہ ابوداؤد آپ کے سپرد ہوئی، جس کادرس آپ نے پچاس سالوں سے زائد عرصہ تک دیا، مختلف سالوں میں صحیح مسلم وسنن ونسائی وغیرہ کابھی درس دیا،سنن ترمذی کادرس بھی کم وبیش چالیس سال سے زائد دیا ہے، ذی قعدہ ۱۳۹۰ھ میں آپ کو رئیس الاساتذہ نامزدکیاگیا، ایک طویل عرصہ تک اس عہدہ پر فائز رہے، پھرمولاناسلمان صاحب مظاہری ؒ کی وفات کے بعد نظامت کی ذمہ داری اورشیخ یونس صاحب جونپوریؒ کی وفات کے بعد مشیخت حدیث کی مسند آپ کے سپردہوئی اورآپ نے دونوں ذمہ داریوں کاحق اداکیا۔
آپ کانکاح ۸/ربیع الثانی ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹/ستمبر ۱۹۶۱ء میں حضرت شیخ الحدیث زکریاکاندھلویؒ کی صاحب زادی صفیہ خاتون سے حضرت رائے پوری نوراللہ مرقدہ کی مجلس میں ہوئی، نکاح خوانی کے فرائض حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ نے انجام دی،اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں خیر و برکت عطا فرمائی،چھ لڑکے: مولانامحمدجعفر، مولانا محمد عمیر، مولانا محمد عادل، مولانا محمدعاصم، مولانا محمد ثانی اور مولانا محمد قاسم اورچھ لڑکیاں:میمونہ خاتون، صالحہ خاتون، زینب خاتون، حمیرا خاتون، آمنہ خاتون اورامیمہ خاتون نے اس رشتۂ مناکحت کے طفیل اس دنیائے آب وگل میں شعور کی آنکھیں کھولیں اوراس طرح حضرت مولانا ’’إنی مکاثربکم الأمم‘‘ کے مصداق بھی بنے۔
آپ کی عادت چھُپ کرکام کرنے کی تھی، چھَپنے سے آپ کوسوں دوررہتے تھے، جلسے جلوس میں شرکت سے بھی گریز کرتے تھے؛ حتی کہ ’’ختم بخاری‘‘ میں بھی شریک نہیں ہوتے تھے(اخیرکے چندسالوں میں اسفاربھی ہونے لگے تھے)، اللہ تعالیٰ نے آپ سے کافی علمی کام لیا، ابتدائی دورمیں ’’حضرت شیخ‘‘ (شیخ زکریا کاندھلویؒ)کے معین ومددگار رہے، بالخصوص الابواب والتراجم اوربذل المجہود وغیرہ کی تحقیق وتیاری میں مکمل طورپرساتھ رہے، خود بھی تصنیفی وتالیفی ذوق پایاتھا، جس کے نتیجہ میں کئی اہم تالیفات منصہ شہود میں آئیں، ’’الکوکب الدری‘‘ پرآپ نے مقدمہ لکھا، مظاہرعلوم کے تعارف پر عربی زبان میں ایک کتابچہ تیارکیا، ’’الحل المفہم لصحیح مسلم‘‘ (جوحضرت گنگوہی کے درسی افادات ہیں) کواپنے حواشی، تعلیقات اورتشریح کے ساتھ مزین کیا، ’’الفیض السمائی علی سنن النسائی‘‘(جوحضرت گنگوہی اورحضرت شیخ کے افادات ہیں) کواپنی تحقیق، تشریح اورتحشیہ کے ساتھ شائع کیا، آپ کایہ سارا کام عربی زبان میں ہے، اردوزبان کادامن بھی آپ کی علمی خدمات سے خالی نہیں؛چنانچہ آپ کے گوہربارقلم سے سنن ابوداودکی بے نظیرشرح وجود میں آئی، جوچھ جلدوں میں ’’الدرالمنضود‘‘ کے نام سے علمی دنیامیں معروف ہے، اس میں بعض مباحث توایسے تشفی بخش ہیں کہ ہرقاری کے دل سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے، استحاضہ کی بحث کوہی لیجئے، اس کی بحث کوسمجھنے میں اہل علم اسی طرح سرگرداں رہتے ہیں،جس طرح خودمستحاضہ خاتون؛ لیکن الدرالمنضود میں اس کی بحث کوپڑھ کرساری سرگردانی بھی ختم ہوجاتی ہے اور دردر سری بھی، اسی طرح آپ نے حضرت شیخ کے ملفوظات کو بھی مرتب فرمایاہے اور’’مختصرفضائل درود شریف‘‘ بھی ترتیب دی ہے۔
کل(۲۸/ اپریل ۲۰۲۵ء /۲۹/ شوال ۱۴۴۶ھ) اچانک کسی واٹس ایپ گروپ میں یہ اندوہ ناک خبرملی کہ حضرت مولانا عاقل صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے تودل دھک سے رہ گیا،یہ سانحہ مرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا، بے ساختہ کلمات استرجاع زبان سے نکلے، آنکھوں کے سامنے بیس سال پہلے کا پورانقشہ کھنچ گیا، یہ میری بدنصیبی ہے کہ بیس سال پہلے جو تعلق حضرت سے قائم ہواتھا، وہ خواہش کے باوجود باقی نہ رکھ سکا، درمیان میں غالباً ایک ہی بارپھرملاقات کے لئے سہارنپور جاناہوا، حضرت نے تقریباً ۸۸/ سال کی طویل عمر پائی اور ماشاء اللہ پوری عمر علم دین؛ بل کہ علم حدیث کی خدمت میں گزری اورہزاروں شاگردوں کوسوگوار چھوڑ کر داربقاء کی طرف کوچ کرگئے، اللہ تعالیٰ ان کے حسنات کوقبول فرمائے اوربشری تقاضے سے جوسیئات سرزدہوئے ہوں، انھیں معاف فرمائے اورامت کوان کانعم البدل عطافرمائے، آمین یارب العالمین!!!
ایک تبصرہ شائع کریں