مصنوعی ذہانت اور تصنیفی حق

مصنوعی ذہانت اور تصنیفی حق

مصنوعی ذہانت اور تصنیفی حق

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

انسانی فکر و تحقیق کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں نئے وسائل اور آلات نے علم کے فروغ اور اظہار کے طریقوں کو بدل ڈالا ہے، تحریر کے آغاز سے طباعت کی ایجاد تک اور قلم و دوات سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے سفر تک، ہر مرحلے نے علمی دنیا میں سہولتوں کے ساتھ ساتھ نئے سوالات بھی جنم دیے ہیں۔

آج کا دور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا ہے، اور اس میدان میں ChatGPT جیسے ایپلیکیشن نے اہلِ علم، محققین اور طلبہ کو ایک نیا سہارا عطا کیا ہے؛ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ ایسی تحریر یا کتاب جو اس مشینی مدد سے تیار کی جائے، اسے اپنی طرف منسوب کرنا کہاں تک درست ہے؟

یہ سوال ایک علمی دیانت، امانتِ فکر اور تحقیقی ذمہ داری سے تعلق رکھتا ہے؛ کیوں کہ ChatGPT بذاتِ خود کوئی صاحبِ فکر و شعور انسان نہیں؛ بل کہ ایک خودکار آلہ ہے، جو فراہم کردہ معلومات کو مخصوص انداز میں ترتیب دیتا ہے، اس میں غلطی اور تعصب کا امکان بھی رہتا ہے اور اس کے فراہم کردہ مواد کو جوں کا توں نقل کرنا کبھی بھی علمی معیار کے مطابق نہیں ہوسکتا۔

اسی پس منظر میں فقہی و علمی حلقوں میں یہ بحث اٹھتی ہے کہ مشینی مدد سے تیار شدہ مواد کو اپنی جانب منسوب کرنے کی حدود و قیود کیا ہیں؟ اور اس پر کس درجے میں علمی و شرعی اعتبار سے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر ذیل کی سطور میں تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

بلاشبہ ChatGPTکے ذریعہ ہم تحریری مددلے سکتے ہیں اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ مدد انگریزی زبان میں زیادہ اچھے طریقے سے مل سکتی ہے اردو یاعربی میں کافی زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں، یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات ایک توبغیرحوالہ کے ہوتی ہیں اور اگر حوالہ دے بھی دے اور عمومی طور پر وہ غلط حوالہ ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ وہی معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں، جواس کے اندرفیڈ کی گئی ہیں، غلط اورتعصب سے پرمعلومات بھی ہمیں بہت سارے مسائل میں ملتی ہیں؛ اس لئے یہ کہنا کہ مکمل طورپرپوری کتاب یا جیسا آپ چاہتے ہیں، ویساپورا مضمون وہ اس طرح مرتب کردے کہ آپ کوبالکل بھی ہاتھ لگانے اور تصحیح کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے، شاید ممکن نہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ChatGPTسے مددلینے کے باوجود بھی دماغ سوزی کرنی ہی پڑتی ہے۔

پھریہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کی تحاریرکسی کی ملکیت نہیں ہے، جیسااسے کہاجائے گا، اسی حساب سے وہ لکھ کردے گا، گویایہ ایک مشین ہے، جسے کمانڈ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اب ظاہر ہے کہ مشین نے جس کے حکم سے اپنا پروڈکٹ تیار کیا ہے، وہ پروڈکٹ اسی حکم دینے والے کا ہی تو کہلانے کامستحق ہے۔

اس سلسلہ میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کاایک فتوی ’’کسی کی تحریرشائع کرنے‘‘ سے متعلق ہے، اس کے جواب میں ہے کہ: 

کسی اور کی لکھی ہوئی تحریرآگے بھیجنے کے لئے درج ذیل تین باتوں میں ایک کا اہتمام ضروری ہے: 

۱-لکھنے والے کانام یا اس کی کتاب، ویب سائٹ، یا پیج وغیرہ کاحوالہ دیا جائے۔

۲-لکھنے والے کی طرف سے اس تحریر کو نقل کرنے کی اجازت ہو۔

۳-اس تحریرسے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تحقیق واضافہ کرکے اس میں اتنی بنیادی تبدیلی کرچکاہوکہ اسے اس کی تحریرکہاجاسکے۔(دیکھئے)

اس فتوی میں جن باتوں کا ذکرکیاگیاہے، ان کاتعلق کسی آدمی کی تحریرسے ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس میں اگر اضافہ کردیا جائے توپھر کسی اورکی تحریر اس کی اپنی تحریر بن سکتی ہے، جب کہ یہاں معاملہ کسی آدمی کی تحریر کا نہیں ہے؛ بل کہ ایک ایسی مشین کاہے، جسے اس طرح کے کاموں کے لئے ہی تیار کیا گیاہے، لہٰذا راقم کی رائے یہ ہے کہ چوں کہ ChatGPT کے ذریعہ تیارکردہ مضمون، بحوث ومقالات اور کتاب اس کے کمانڈ کے ذریعہ وجود میں آتی ہے، نیز اس میں بہرحال تصحیح وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہی ہے، جس کے بغیر اس تحریریاکتاب کی اشاعت ممکن نہیں؛ اس لئے ایسی تحریر یا کتاب کی نسبت اپنی طرف کرنے کی گنجائش ہونی چاہئے، اسلام ویب کے ایک فتوی میں اس تعلق سے جواب دیتے ہوئے لکھا گیا ہے:

فلا حرج في ذلك؛ فالسائل هو الذي يختار ما يراه مناسباً مما يُقترَح عليه من هذه المواقع، ثم يقوم بعد ذلك بما ذكره من:(إعادة تنسيق الموضوع، وتصحيح ما فيه من أخطاء إملائية، وغيره)،والله أعلم.(دیکھئے)

اس میں حرج نہیں؛ کیوں کہ سائل ان سائٹس سے ان ہی چیزوں کا انتخاب کرتاہے، جسے وہ مناسب سمجھتا ہے، پھراس میں موضوع کودوبارہ ترتیب دیتا ہے اور املاوغیرہ کی غلطیوں کودرست کرتا ہے، واللہ اعلم!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی