مصنوعی ذہانت (AI) کااستعمال
(شرعی جائزہ)
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر دور میں علوم و فنون نے ترقی کی نئی راہیں ہموار کی ہیں، آج کی دنیا میں جس علم نے سب سے زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کی ہے، وہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence: AI) ہے، یہ محض ایک سائنسی ایجاد نہیں؛ بل کہ انسانی سوچ اور مشین کی کارکردگی کے حسین امتزاج کا نام ہے، جس نے تعلیمی، معاشی، تجارتی اور سماجی میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ’’ذہانت‘‘اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے، اسی ذہانت کی طبعی خصوصیات کو سائنسی وسائل کے ذریعہ’مصنوعی ذہانت‘‘کی شکل میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے؛تاکہ مشینیں بھی سوچنے، سمجھنے، سیکھنے اور فیصلے کرنے کے قابل ہو سکیں؛
البتہ سوال یہ ہے کہ: کیا اس عظیم ایجاد سے بڑھ چڑھ کر استفادہ کیا جائے یا اس کے استعمال میں احتیاط اور تحفظ برتا جائے؟ اورکیا یہ سہولت انسانیت کے لئے خیر کا ذریعہ ہے یا خطرات کا پیش خیمہ؟
اس سلسلہ میں سب سے پہلےتو یہ جاننا ضروری ہے کہ’’ذہانت‘‘ کیاہے؟ پھراس کے بعدہم ’’مصنوعی ذہانت‘‘ اور ’’AI‘‘ کی طرف قدم بڑھائیں گے، جس کی اس وقت آئی ٹی آئی کی دنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے، تواس کاجواب یہ ہے کہ :
’’ذہانت قدرت کی طرف سے عطاکردہ ایک نعمت اورتحفۂ خاص ہے، جودماغ کے خلیوں میں جمع معلومات کے ذخیرہ (Data)کوہنرمندی کے ساتھ برتتی یا استعمال کرتی ہے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بعد عمل کے لئے جسم اوراس کے حواس خمسہ کواحکام صادر کرتی ہے، جن کے نتیجہ میں آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، زبان بولتی ہے، اعضاءوجوارح حرکت کرتے ہیں، انسان کے اندرقوت تفکیرپیداہوتی ہےاور وہ کسی عمل پرحالات کے مطابق رد عمل ظاہرکرتا ہے اور متعینہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔ (مصنوعی ذہانت، از: باقر نقوی، ص:۳۳)
ویکی پیڈیامیں ذہانت کی تعریف یوں کی گئی ہے:
’’ذہانت (Intelligence) اصل میں عقل (Mind) کی وہ صلاحیت یا خاصیت ہوتی ہے، جس کی مدد سے وہ کسی بات یا تجربے کا ادراک و فہم کر سکتی ہو یعنی اس کو سمجھ سکتی ہو، اس سمجھ بوجھ کے عمل میں بہت سی ذہنی خصوصیات شامل ہوتی ہیں، جن میں سبب، منصوبہ، بصیرت اور تجرید (Abstraction) وغیرہ شامل ہیں‘‘۔
اب آتے ہیں مصنوعی ذہانت کی طرف، اس کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالرحیم لکھتے ہیں:
أنه عبارۃ عن تحویل الآلة من حالة الجمود إلی حالة تجعلها قادرۃ علی الفهم والإدراك والتعلم والتصرف بأسلوب مماثل للطبیعة البشریة، وذلک اعتماداً علی مایتوفر لدیها من مفاهیم وخبرات ومعارف (مجلۃ الدراسات القانونیة، العددالخامس والخمسون، الجزء الأول، مارس۲۰۲۲، عنوان:الذکاء الاصطناعي وأثرہ فی الضمان فی الفقه الإسلامي، ص:۷)
’’یہ علم، فہم اورتجربے کی بنیاد پرمشین کوجمود کی حالت سے ایک ایسی حالت میں تبدیل کرنے سے عبارت ہے، جواسے سمجھنے، سیکھنے اور عمل کرنے کے اس طرح قابل بنائے، جوانسانی فطرت سے ہم آہنگ ہو‘‘۔
ڈاکٹرعادل عبدالنور نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
ھوعلم ھدفه الأول جعل الحاسوب وغیرہ من الآلات تکتسب صفة الذکاء، ویکون لها القدرۃ علی القیام بأشیاء مازالت إلی عهد قریب حصراً علی الإنسان کالتفکیر والتعلم والإبداع والتخاطب(مدخل إلی علم الذکاء الاصطناعي، ص:۷)
’’ایساعلم اورسائنس، جس کامقصد ایسی مشینیں، کمپوٹراورسافٹ ویئرتیارکرنا ہے، جوذہانت کی صفت سے متصف ہوں اوران امور کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو ابھی تک صرف انسان انجام دیاکرتے تھے، جیسے: غوروفکر، علم کا حصول، تخلیقی صلاحیتیں اوربات چیت‘‘۔
مذکورہ سطورسے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مصنوعی ذہانت کامطلب ایسی مشینوں کی ایجادہے، جوعمل وردعمل اورسوچ وفکر کے لحاظ سے انسان جیسا ہو، ظاہرہے کہ ایسی مشینوں کااستعمال نہ توفی نفسہ نادرست قرارپائے گا اورنہ ہی علی الاطلاق استعمال کوروا رکھا جائے گا؛ کیوں کہ یہ ایک مشین ہے، جس کا استعمال انسان اچھائی کے لئے بھی کرسکتا ہے اوربرائی کے لئے بھی کرسکتا ہے، وہ مشین ہے اور کمانڈ کاپابندہے اوربس، لہٰذا اس کے استعمال کاحکم معلق ہوگا، اگر اچھائی کے لئے استعمال کیاجائے توحرج نہیں؛ لیکن اگراس کااستعمال برائی کے لئےکیاجائے تونادرست ہوگا، لہٰذا اصل کے اعتبار سے اس کااستعمال درست ہے؛ کیوں کہ قاعدہ ہے: الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم(القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة :1/ 190،الأشباه والنظائر لابن نجيم:1/ 57)’’اشیاء کی اصل مباح ہونا ہے؛ یہاں تک کہ اس کی حرمت پر دلیل قائم ہوجائے‘‘۔
نیز قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ﴾[ سورة:الجاثية، من الآية ١٣]اور یہ سائنس کی تسخیر ہے؛ اس لئے اس کے استعمال کی گنجائش ہے۔
علامہ سخاوی کی تفسیرمیں ہے:
{هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} فيه دليل على أن أصل الأشياء بعد ورود الشرع على الإباحة.وعلي هامشه:الأصل في الأشياء الإباحة؛لأن الإباحة هي الحكم الأصلي لموجودات الكون، وإنما يحرم ما يحرم منها بدليل من الشارع لمضرتها، والدليل على أن الحكم الأصلي للأشياء النافعة هو الإباحة: قوله - تعالى - ممتنا على عباده: وسخر لكم ما في السماوات وما في الأرض جميعا منه إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون [الجاثية: 13] وقوله - تعالى: هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا [البقرة: 29] ولا يتم الامتنان ولا يكون التسخير إلا إذا كان الانتفاع بهذه المخلوقات مباحا.( تفسير القرآن العظيم للسخاوي،تفسير سورة البقرة:1 /63 )
’’وہی ہے، جس نے زمین میں موجود سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں‘‘، اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت آنے کے بعد چیزوں کی اصل حالت اباحت (جائز ہونا) ہے،اور حاشیہ میں ہےکہ:چیزوں کی اصل اباحت ہی ہے؛کیوںکہ کائنات کی موجودات کے لئے یہی اصل حکم ہے، ان میں سے جو چیز نقصان دہ ہے، وہ شارع (اللہ اور اس کے رسول ﷺ) کی دلیل سے حرام کی جاتی ہے اور جو چیزیں نفع بخش ہیں، ان کے اصل حکم کے اباحت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان جتاتے ہوئے فرمایا:’’اور اس نے تمہارے لئے سب کچھ مسخر کردیا، جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں‘‘[الجاثیہ:13]، اسی طرح فرمایا:’’وہی ہے، جس نے زمین میں موجود سب کچھ تمہارے لئے پیدا کیا‘‘ [البقرہ:29]،اور احسان کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا اور تسخیر کا مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے، جب ان مخلوقات سے نفع اٹھانا (انتفاع) جائز ہو‘‘۔
امام سرخسی فرماتے ہیں:"أن الأصل في الأشياء الإباحة، وأن الحرمة بالنهي عنها شرعا".(المبسوط للسرخسي،باب الإكراه،باب تعدي العامل،ج:24،ص:77،ط:دارالفكر)’’اشیاء کی اصل اباحت ہے، اور حرمت صرف اس وقت ثابت ہوتی ہے جب شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو‘‘۔
یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ ایسی چیزوں کے استعمال کے حکم کامدار ان کے مقاصد پرہے، اگرمقصددرست ہوتواستعمال بھی درست؛ لیکن اگرمقصد نادرست ہوتواستعمال بھی نادرست، قاعدہ ہے:الأمور بمقاصدھا، جس کی بنیادحدیث إنماالأعمال بالنیات ہے۔
معلوم ہوا کہ مصنوعی ذہانت(AI) استعمال کرنے کی فی نفسہ گنجائش ہے؛ البتہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ ایک مشین ہے، جس کاسوفیصد درست ہونا محل نظر ہے، بالخصوص علمی ودینی معلومات کے تعلق سے،دوسری بات یہ کہ اس کے تیار کرنے والے بہرحال اسلام دشمن افراد ہیںاوردشمنوں سے یہ امیدکہ ہمارے تعلق سے صحیح معلومات ہی فراہم کریں، ضروری نہیں، لہٰذا اس پرمکمل بھروسہ کسی طور درست نہیں،تحفظ ضروری ہے، ہذا ماعندی واللہ أعلم بالصواب!
ایک تبصرہ شائع کریں