آہ! منیرالدین مرحوم:تم سوگئے اذاں دیتے دیتے!
دنیاایک فانی جگہ ہے، یہاں کوئی بھی ہمیشہ ہمیش رہنے کے لئے نہیں آتا، اگرکوئی رہنابھی چاہے توتکوینی قاعدہ ایسا ہے کہ وہ رہ نہیں سکتا، ہزاروں سال سے اس دنیا کا یہی دستور چلا آرہا ہے کہ جوبھی آیا، جانے کے لئے آیا، اربوں کھربوں جاچکے ہیں، کروڑوں جانے کے لئےتیارہیں، باقی جوبچے ہیں، وہ بھی دیرسویرجائیں گے ہی، جانابہرحال طے ہے:
موت سے کس کورستگاری ہے
آج اس کی، کل ہماری باری ہے
بلیاپور کے سابق مؤذن صاحب: جناب منیرالدین انصاری مرحوم بھی انھیں جانے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئے اورکل بروز جمعرات ۱۴/ اگست ۲۰۲۵ء کو وہ اِس دارِفانی سے کوچ کرکے اُس دارِبقاء کی طرف روانہ ہوگئے، جہاں سے کوئی لوٹ کرنہیں آتا، بس اس کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں، اس کے نقوش ذہن کے کینوس میں چھَپے رہ جاتے ہیں، اس کاگفتار، اس کا کردار، اس کی چلت پھرت، اس کی بود وباش، اس کی طرزِزندگی، اس کی نششت وبرخاست، لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات اور اہل تعلق کے ساتھ اس کاسلوک ، یہ سب اس کے پیچھے بعد والوں کے لئے موضوع سخن بن کر رہ جاتے ہیں۔
میراان سے تعلق دوہزارسترہ سے ہے، جب میں نے بلیاپورمیں ’’ہدی چلڈرنس اکیڈمی‘‘ کے نام سے بچوں کے لئے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ ایک اسکول کی بنیاد رکھی تواس وقت اتفاقاً بلیاپور کی مسجد میں امامت کی جگہ بھی خالی تھی، بس میں نے بھی عرضی ڈال دی اورحسن اتفاق کہ میراسیلیکشن بطور امام ہوگیا، بس یہیں سے میراان سے تعلق استوارہوا، وہ تھے اس مسجد کے مؤذن اورمیں تھا اس مسجد کا امام اورامام ومؤذن کا آپس میں جوتعلق ہوتا ہے، وہ جگ ظاہر ہے،یہی تعلق میرا ان سے تھا۔
ان کی پچھلی زندگی کیسی گزری؟ یہ توبلیاپور کے باشندے ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ’’صاحِبُ البیت أدریٰ بمافیہ‘‘ (گھر کاحال، گھروالا ہی جانتا ہے) کی کہاوت مسلم ہے؛ لیکن میں نے انھیں جیسا پایا، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ:
وہ ایک ایسے انسان تھے، جن کی زندگی دین کی خدمت، اخلاق کی بلندی اور اہلِ علم سے محبت سے عبارت تھی،ان کا دینی مطالعہ نہایت وسیع تھا، وہ اردو زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے، علم و ادب سے ان کی محبت صرف نظری نہیں؛بل کہ عملی بھی تھی، وہ اکثر اخبارات کے تمام مضامین پڑھتے نہیں؛ بل کہ چاٹ جاتے تھے، اپنے دینی مطالعے سے دوسروں کو بھی مستفید کرتے رہتے تھے، ملنے جلنے والوں کودین کی صحیح تعلیمات سے روشناس کراتےتھے۔
مرحوم کی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ بھی تھا کہ وہ کئی دہائیوں تک مؤذن کی حیثیت سے مسجد کی خدمت انجام دیتے رہے، اذان کی صدا سے وہ اہلِ محلہ کے دلوں میں ایمان کی حرارت جگاتے اور مسجد کو آباد رکھنے میں اپنا حصہ شامل کرتے تھے، ان کی اذان میں جو روحانیت اور اخلاص ہوتا، وہ سننے والوں کے دلوں کو مسخر کر لیتا تھا، اذان دینے میں ان کا ایک خاص طرز تھا، جو کوسوں دورسے بھی سمجھ میں آجاتا تھا کہ یہ ہمارے مؤذن صاحب کی آواز ہے، جب کسی میت کے جنازہ کا اعلان کرنا ہوتا تو ایک پڑھے لکھے شخص کی طرح پورے ادب واحترام کے ساتھ مخصوص الفاظ اور مخصوص لب و لہجہ میں اعلان کرتے تھے، ان کا یہ اعلان آج بھی لوگوں کی یاد داشت میں محفوظ ہے۔
مرحوم کا تعلق علماء کرام اور اہلِ علم سے نہایت گہرا تھا، وہ نہ صرف علماء کی صحبت اختیار کرتے؛ بل کہ ان سے فیض حاصل کرتے اور اپنی زندگی میں دینی رہنمائی کے لئے ان سے مشورہ لیتے، ان کا یہ تعلق اس بات کی دلیل تھا کہ وہ دین کو محض ایک رسمی روایت نہیں؛ بل کہ عملی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے،ان کی شخصیت میں عاجزی، سادگی اور ملنساری کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا، وہ ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے، بزرگوں کا ادب کرتے اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے۔
وہ صبر کے اعلیٰ مقام پرفائز تھے، گھریلو پریشانیوں اور مالی تنگیوں سے گھرے ہونے کے باجود ان کے اظہار سےکتراتے تھے، وہ ایک قناعت پسند شخص تھے، جوکچھ انھیں ملتا تھا، اسی پر کفایت شعاری کے ساتھ کام چلانے کی کوشش کرتے تھے، عام طور پر شکوہ وشکایات سے وہ دور رہتے تھے۔
جب وہ عمرکی اُس دہلیز پرپہنچے، جہاں قُویٰ کمزور، جسم تکان سے چور، ہاتھ میں رعشہ اورآواز میں لرزش آجاتی ہے تومسجد کمیٹی نے انھیں باعزت ’’وظیفۂ مؤذنی‘‘ سے سبکدوش کردیا اور ماہانہ ایک رقم ان کے لئے متعین کردی ، جو ہرماہ باقاعدگی کے ساتھ ان کے سپردکردیاجاتاتھا، جس سے وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات اوردواداروکی ضروریات کی تکمیل کرتے تھے۔
مرحوم کی وفات نہ صرف ان کے خاندان کے لئے؛ بل کہ پورے علاقے کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے، ان کی مسجد کی خدمت، دینی ذوق اور علم و ادب سے محبت کی یادیں دیر تک لوگوں کے دلوں میں باقی رہیں گی اوران شاء اللہ قیامت کے دن اللہ کے رسولﷺ کے ارشاد:المؤذنون أطول الناس أعناقاً یوم القیامۃ(قیامت کے دن مؤذنین کی گردنیں دوسرے لوگوں سے زیادہ طویل ہوں گی)کے مصداق قرارپاکر اللہ کی رحمت سے زیادہ قریب ہوں گے، اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت و مغفرت سے نوازے، ان کی قبر کو نور سے بھر دےاور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
ایک تبصرہ شائع کریں