یومِ آزادی: سوال یہ ہے کہ آزادی نے ہمیں کیا دیا؟

یومِ آزادی: سوال یہ ہے کہ آزادی نے ہمیں کیا دیا؟

یومِ آزادی: سوال یہ ہے کہ آزادی نے ہمیں کیا دیا؟

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی


آزادی صرف انسان کی نہیں؛بل کہ حیوانات کی فطرت کا بھی حصہ ہے، اگر ایک چیونٹی کو بھی قید کر دیا جائے تو وہ طرح طرح کی کوششیں کر کے اپنی آزادی واپس لینے کی جستجو کرتی ہے، جب ایک ننھی سی مخلوق میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے تو انسان میں تو یہ کہیں زیادہ فطری طور پر موجود ہے،اسی لئے جب بھی کسی شخص کی آزادی سلب کی گئی، اس نے اپنی کھوئی ہوئی آزادی کے لئے ہر ممکن حربہ آزمایا۔

جس طرح آزادی فطرت کا حصہ ہے، اسی طرح دوسروں کی آزادی چھیننا بھی بہت سی مخلوقات کی سرشت میں شامل ہے،مکڑی اپنے جال میں پھنسنے والے کمزور پر فوراً جھپٹ پڑتی ہے اور اسے اپنے تاروں میں لپیٹ لیتی ہے،بھڑ کیڑوں کو پکڑ کر اپنے چھوٹے مٹی کے گھروں میں قید کر دیتی ہے، انسان بھی یہی مزاج رکھتا ہے؛ مگر وہ محض جسمانی قید پر اکتفا نہیں کرتا؛ بل کہ قومی، سماجی اور حتیٰ کہ فکری آزادی بھی چھین لیتا ہے اور یہی کشمکش کبھی کبھی بھیانک جنگوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

دنیا میں بالخصوص یورپی اقوام صدیوں سے کمزور قوموں کی آزادی سلب کرنے میں پیش پیش رہی ہیں، پہلے وہ جسمانی و ملکی آزادی چھینتی تھیں، اب زمانے کے ساتھ انداز بدل گیا ہے اور وہ ذہنی غلامی مسلط کر کے ایسا جال بچھا دیتی ہیں کہ مقید لوگ خود کو آزاد سمجھتے رہتے ہیں، یہی ہے ان کے شعور کا کمال۔

ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہوا، سولہویں صدی میں یہ گورے تاجر بن کر آئے، پھر قابض و غاصب بن بیٹھے، مقامی باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے؛حتیٰ کہ لوگوں نے جان و مال کی قربانیاں دے کر 1947ء میں کھوئی ہوئی آزادی واپس حاصل کی، اس جدوجہد میں ہر مذہب اور طبقے کے لوگوں نے حصہ لیا؛ مگر افسوس یہ ہے کہ آزادی کے فوراً بعد دانستہ طور پر لوگوں کے ذہن و قلوب بدلنے کی سازش کی گئی، بھائی چارہ اور محبت کی فضا مسموم کر دی گئی اور مذہب کے نام پر معاشرہ تقسیم ہو گیا۔

آج ہمارے ملک کے آزاد ہوئے تقریباً اسی سالوں کاعرصہ بیت رہاہے؛ لیکن یہاں پربسنے والے لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں کئی طرح کے سوال کلبلارہے ہیں، جن کاجواب انھیں نہیں مل پارہاہے:

۱-ایک سوال تویہ ہے کہ اس ملک کی آزادی کامقصد کیا تھا؟ ظاہرہے کہ اس کاجواب ’’ظلم وستم سے آزاد فضاؤوں میں سانس لینا اورپرسکون زندگی گزارنا‘‘ ہے، اس جواب پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کی آزادی کایہ مقصد پورا ہورہاہے؟ ملک کے اس کونے سے لے کراس کونے تک کاسفر کرلیجئے، ایک بڑی تعدادکے سامنے خوف وہراس کاعفریت منھ کھولئے کھڑانظرآتاہے، علاقائی تعصب، مذہبی تعصب، ذات کا پات کا تعصب، مالداری اورغریبی کا تعصب اور کہیں کہیں رنگ ونسل کا تعصب اس شدومد کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتاہے کہ اس کے دبتے دبتے ہزاروں کی جانیں جاچکی ہوتی ہیں، ستم اس پریہ ہوتاہے کہ ملک کے اقتداراعلی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینکتی۔

۲- دوسراسوال یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعدجوقانون اوردستوربنا، اس میں ہراس شخص کاخیال رکھاگیاہے، جواس ملک میں رہتابستاہو، اس کی شخصی آزادی اور مذہبی آزادی کی رعایت خصوصیت کے ساتھ کی گئی ہے؛ لیکن کیاآج اس قانون کی پاسداری کی جارہی ہے؟ اس کاجواب حکومت اوراس کے کارندوں کے اعمال اوران کی زبان سے واضح طورپرہمیںمل رہا ہے، اس پرزیادہ کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں، تقریباً ہرروز کچھ نہ کچھ مشاہدہ میں آہی جاتاہے۔

۳-تیسراسوال یہ اٹھتا ہے کہ آزادی کے اتنے سال گزر جانے کے باوجود بے روزگاری کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے؟ لوگ پڑھے لکھے ہونے کے باوجودمارے مارے کیوں پھررہے ہیں؟ روزگارنہ ملنے کی وجہ سے نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں، اس طرح کے کتنے واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں؛ لیکن اس طرف خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

۴-چوتھاسوال یہ ہے کہ آزادی کے اتنے سالوں بعدبھی غریبی جوں کی توں ہے، آج بھی یہ خبریں سننے کومل جاتی ہیں کہ فلاں کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی، دعوے توبہت ہیں، ایک اوردوروپے کیلوچاول کی فراہمی بھی بتلائی جارہی ہے؛ لیکن اس کے باوجودبھوک سے مرنے کی خبرچہ معنی دارد؟

۵-ایک سوال یہ بھی ہے تعلیم کے سلسلہ میں کئی مرتبہ بل پاس ہوئے؛ لیکن آج بھی تعلیمی اعتبارسے وہی پسماندگی پائی جارہی ہے، بالخصوص قبائلی اوراقلیتی طبقات میں، جگہ جگہ اسکول کھولنے کی بات کی جارہی ہے، اساتذہ کی تقرری بھی عمل میں آہی جاتی ہے، جن کی تنخواہیں بھی بڑی پرکشش ہوتی ہیں، بچے بھی اسکول جاتے ہیں، اس کے باوجودتعلیم ندارد، غلطی کہاں پائی جارہی، جس کی وجہ سے تعلیمی پسماندگی دورہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے؟

۶-ایک سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ آزادی کامطلب بے خوف و خطرجہاں چاہیں آئیں جائیں، یہ نہیں کہ ہمیشہ دھڑکا لگارہے، بالخصوص عورتوں، لڑکیوں اوربچیوں کے ساتھ اغوا، ریپ، دست درازی وغیرہ کے جومعاملے پیش آرہے ہیں، وہ ملک کے ہرباشندہ کاسرجھکانے کے لئے کافی ہے۔

۷-یہ بھی ایک بڑاسوال ہے کہ سرکاری کوئی بھی کام اس وقت تک انجام نہیں پاسکتا، جب تک کہ رشوت نہ دی جائے، اپنے ملک کے لوگ ہیں؛ بل کہ بھائی بندوہیں، اس کے باوجود اپنا جائز حق لینے میں رشوت دینی پڑتی ہے، اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ ملک کس ڈگرکی طرف چل چکاہے۔

۸-یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈورتھماتے ہیں، ان کے رویہ سے یہ محسوس کیوں نہیں ہوتاکہ وہ حقیقتاً ملک میں ترقی چاہتاہے؟ سفر اور دیگر اخراجات ہی میں اس کے کروڑوں روپے صرف ہوجاتے ہیں، جو یقیناً بے مصرف کا صرفہ ہوتاہے، اگریہی روپے غریبی دورکرنے میں ہوتوکتناہی اچھاہو۔

یہ اوراس طرح کے سینکڑوں سوالات ایسے ہیں، جن کے جوابات اتنا عرصہ بیت جانے کے بعدبھی عوام الناس کونہیں مل پار ہے ہیں، ہم ہرسال ۱۵/اگست کے دن آزادی کاجشن روایتی اوررسمی طورپرمناتولیتے ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارایہ جشن کھوکھلا ہوتاہے، یہ بالکل ویساہی ہوتا، جیسے ہم عیدکے دن دل ملے یانہ ملے اپنے دشمن کوبھی گلے لگالیتے ہیں۔

اس سال کے جشن آزادی میں آزادی منانے سے پہلے ہم میں سے ہرشخص کوچاہئے کہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈھنے کی کوشش کرے اوراس کے لئے جہاں تک ہوسکے، جائے، الکٹرانک، پرنٹ اورشوشل میڈیاز کااستعمال کرے، اپنے ملنے جلنے والے ہرفردکے سامنے یہ سوالات رکھے اوران سے جواب مانگے اورجب تک جواب نہ ملے، تلاش کرتارہے، ابھی وقت بہت باقی ہے، ان سوالات کے جواب کے ذریعہ ہی ہم ملک کو بچاسکتے ہیں اورملک کی جس آزادی کے لئے ہمارے پرکھوں نے قربانیاں دی ہیں، اس آزادی کوپایاجاسکتاہے، ورنہ نام آزادی کااورکام غلامی کا ہوتارہے گا اورپھر وہی ظالم گوروں کادور؛ بل کہ اس سے بھی بدتردورآئے گااوریہ مان اور جان رکھئے کہ صرف کسی ایک طبقہ کے لئے نہیں آئے گا؛ کیوں کہ :

لگے گی آگ توآئیں گے گھرکئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی